فانی کا ایک مشہور شعر ہے:
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں:
کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی
یہ زندگی کے بارے میں دو متضاد نظریات ہیں۔ تیسرا نقطۂ نظر ان کے بین بین ہے کہ انسان کوشش سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے لیکن بعض اوقات کوشش ناکام ہو جاتی ہے اور تقدیر اسی کا نام ہے۔ میں تقدیر پرست تو نہیں ہوں لیکن زندگی میں اتفاقات کا بہت قائل ہوں۔ اقوام کے بارے میں تو کچھ رائے رکھنا مشکل تر ہے لیکن افراد کو بھاگ دوڑ سے کچھ نہ کچھ حاصل ضرور ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود زندگی اتفاقات و حوادث کا ایک نامختتم سلسلہ ہے۔ اگرچہ اس میں میری ضد اور کوشش کا دخل بھی کم نہیں تھا تاہم زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا، اس میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ دو تین برس ٹیڑھے ترچھے راستے سے بھی گزرا اور جب ضد کرکے اپنی مرضی کے راستے پر چل نکلا تو سفر آسان ہو گیا۔ یہ ضرور کہوں گا کہ میری خواہشات بہت کم رہی ہیں۔ اگر انسان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں، مجموعی طور پر تندرست رہے اور زندگی کسی حد تک اپنی مرضی کے مطابق بسر کر سکے تو اور کچھ نہیں چاہیے۔ دولت اور شہرت بے مصرف خواہشات ہیں۔ اقتدار برائے اقتدار میں کچھ لوگوں کے لیے بڑی لذت ہے مگر اس لذت کو ذلت سے الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ معذرت خواہ ہوں کہ تمہید طوالت اختیار کر گئی۔
میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پڑھانے میں صرف کیا اور اس میں سے 90 فیصد عرصہ شعبۂ اردو پنجاب یونیورسٹی میں گزارا۔ جب ساٹھ باسٹھ برس کے اس طویل دورانیے پر وقتاً فوقتاً نظر ڈالتا ہوں تو ان گنت اساتذہ یاد آتے ہیں۔ بہت سے ایسے اساتذہ بھی جنھیں دیکھا تو ہے مگر ان سے براہِ راست مستفید نہیں ہو سکا کیونکہ وہ ریٹائر ہو چکے تھے مثلاً ڈاکٹر مولوی محمد شفیع میرے استاد ڈاکٹر سید عبداللہ کے استاد تھے۔ میں نے جب شعبۂ اردو میں داخلہ لیا تومولوی شفیع سالہا سال پہلے رسمی طور پر کالج سے رخصت ہو چکے تھے۔ پنجاب یونیوسٹی نے ان کی علمیت سے مستفید ہونے کے لیے ایک تحقیقی شعبہ دائرۂ معارفِ اسلامیہ (اردو انسائیکلو پیڈیا) کے نام سے قائم کیا اور مولوی صاحب کو اس کا صدر نشین بنا دیا۔ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری اولڈ کیمپس میں تھی جہاں آج کل یونیورسٹی کا آئی ٹی کالج ہے۔ اس سے ملحق ایک ہموار زمین کا ٹکڑا ہے جو سبزے سے بے نیاز ہے۔ مولوی صاحب وہاں ایک بڑا سا چھاتا لگا کر بیٹھتے تھے۔ بہت مختصر سا سامان دو کرسیاں اور ایک میز، میز پر کچھ فائلیں اور کچھ حوالے کی کتابیں، اس کے اردگرد چند مربع گز جگہ پر پردے لگا کر لوگوں کی آمد و رفت کا راستہ مسدود کر رکھا تھا۔ کسی سے ملتے نہیں تھے۔ وقت طے کیے بغیر تو کسی کے آنے کا سوال ہی نہیں تھا اور کوئی بڑے سے بڑا شخص ملنے آتا تو چائے پانی کا کوئی تکلف گوارا نہ کیا جاتا تھا۔
سنا ہے کہ ایک بار سید سلیمان ندوی جب ان سے ملنے اعظم گڑھ سے تشریف لائے تو انھوں نے سوڈے کی بوتل منگوائی تھی۔ ان کے بیٹے احمد ربانی نے لکھا ہے کہ وہ ہر روز سولہ گھنٹے تحقیقی کاموں میں منہمک رہتے تھے اور قریب ترین عزیزوں کی موت پر بھی یہ معمول جاری رہتا۔ غالباً لکھنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سخت مزاج تھے۔ سید عبداللہ کی گزارش پر ایک دفعہ کسی یورپی مستشرق کی آمد پر ایک تقریب میں صدارت کرنے آئے۔ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ بنیادی طور پر عربی کے آدمی ہیں اس لیے الجھن یہ تھی کہ وہ کس زبان میں صدارتی تقریر کریں گے۔ جب انھوں نے فصیح و بلیغ انگریزی میں خوشگوار لہجے کے ساتھ تقریر شروع کی تو میں حیران رہ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے 1905ء میں پہلے ایم اے انگریزی کیا تھا اور بعد میں ایم اے عربی کرکے انگلستان کا رخ کیا۔ وہاں سے عربی میں پی ایچ ڈی کی اور پھر عمر بھر کے لیے مشرقی زبانوں سے وابستہ ہو گئے۔
مولوی صاحب کا قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا، سرخ و سفید رنگ، بے ریش چہرہ مگر نمایاں مونچھیں جو سلیقے سے بل کھائی ہوئی تھیں۔ ان دنوں مشرقی لباس پہنتے تھے۔ اوپر شیروانی، سر پر پھندنے والی ترکی ٹوپی۔ بہت رعب دار شخصیت تھی۔ انھوں نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام کیا۔ دائرۂ معارف اسلامیہ کا کام ان کی زیرِ نگرانی بہت احتیاط سے ہوتا تھا۔ اس لیے ان کی زندگی میں اس کی رفتار سست رہی اور ابھی پہلی جلد مکمل ہوئی تھی کہ بلاوا آ گیا۔ بعد میں اس کام کو ان کے لائق شاگرد ڈاکٹر سید عبداللہ نے مکمل کیا۔ مولوی صاحب کا انتقال 1963ء میں ہوا جب ان کی عمر 80 سال تھی۔ ہم انھیں بہت معمر سمجھتے تھے لیکن اب عمروں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ کاش ایسے اعلیٰ پائے کے محققین کو چند سال اور مہلت مل جاتی تو اردو انسائیکلوپیڈیا کا کام مکمل کر جاتے۔ خیر مکمل تو ہو گیا لیکن وہ معیار نہ رہا۔
اورینٹل کالج میں ان دنوں ایک اور بہت بڑی شخصیت کا تقرر ہوا۔ وہ علامہ عبدالعزیز میمن تھے۔ غالباً 1963ء یا 1964ء میں وہ کسی تقریب پر پنجاب یونیورسٹی میں آئے تو پروفیسر حمید احمد خان نے جو ان دنوں وائس چانسلر تھے، انھیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ شعبۂ عربی سے وابستہ ہو جائیں چنانچہ وہ کراچی سے آ گئے اور دو سال شعبۂ عربی میں لوگوں کو فیضیاب کرتے رہے۔ علامہ صاحب کے مرتبے کا کوئی عالم شخص برصغیر میں کم ہی پیدا ہوا ہوگا۔ ویسے تو دورِ سرسید میں عربی کے بڑے علما موجود تھے تاہم ان کے علم و فضل کا شہرہ برصغیر تک محدود رہا مگر علامہ میمن کو عربی بولنے والے تمام ممالک میں جانا اور مانا جاتا ہے۔ مجھے عربی کے فاضل حضرات نے بتایا ہے کہ طٰہٰ حسین جیسے علامہ نے اپنی تصانیف میں کئی جگہ علامہ میمن کی کتابوں سے حوالے دیے ہیں۔ علامہ صاحب جوانی میں بھی اورینٹل کالج سے چند سال وابستہ رہے۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی کچھ وقت پروفیسر رہے۔ صحیح معنوں میں بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔ لیکن دوسری مرتبہ جب اورینٹل کالج سے وابستہ ہوئے تو ان کی عمر پچھتر برس کے قریب تھے۔ ان کا حافظہ ابھی ٹھیک ٹھاک تھا۔ حواس بھی برقرار تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ شعبۂ عربی کے بعض سینئر لوگ ان سے کچھ سیکھنے کی بجائے ان سے خائف رہتے تھے اور جب دو سال کے بعد وہ چھوڑ کر چلے گئے تو یہ حضرات پرسکون ہو گئے۔
میں نے جب علامہ صاحب کو دیکھا تو وہ ایک سادہ پہناوے والے ضعیف العمر بزرگ لگتے تھے۔ چوبرجی سے سمن آباد کی طرف جو سڑک جاتی ہے اور پونچھ روڈ کہلاتی ہے وہاں تن تنہا رہتے تھے۔ میں سمن آباد میں رہتا تھا اور سائیکل پر آتے جاتے انھیں کبھی کبھار راستے میں شاپنگ کرتے دیکھتا تھا۔ پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا تھیلا ہاتھ میں ہوتا تھا جس میں بہت تھوڑی تعداد میں پھل ہوتے تھے۔ بڑھاپے میں انسان کی خوراک ویسے ہی کم ہو جاتی ہے مگر ہماری ظالم سوسائٹی ایسے افراد کو جز رس کہتی ہے۔ تاہم انھوں نے ایسے لوگوں کے منہ بند کر دیے جب وفات سے کچھ پہلے اپنا کل اثاثہ، کتابیں اور جمع پونجی کراچی یونیورسٹی کو عطیہ کر دی۔ اورینٹل کالج سے تعلق رکھنے والے ایسے اور بھی بہت نامور لوگ ہوا کرتے تھے جن کا تذکرہ بہ شرط فرصت کبھی کروں گا۔ ان میں ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق، پروفیسر عبدالقیوم، پروفیسر ابوبکر غزنوی اور ڈاکٹر ظہور الدین احمد خصوصاً اس قابل ہیں کہ ان کا ذکر کیا جائے خواہ اجمالاً ہی سہی۔