سوشل میڈیا ٹرینڈ اور دادو

سوشل میڈیا بھی عجیب چیز ہے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بننے والے ٹرینڈز کی طرف چلتا ہے تو چلتا ہی چلا جاتا ہے یہ ایک ایسی بھیڑ چال ہے جس میں معاشرہ پر ان رجحانات کے فوائد و نقصانات کی پرواہ کیے بغیراندھی کاپی پیسٹ شروع ہو جاتی ہے اور اس کے مثبت پہلو جو بھی ہوں لیکن منفی پہلو یہ کہ معاشرہ میں رہنے والے سوشل میڈیا یوزر دیگر افراد معاشرہ کی سوچوں اور بینائی کو ضرور محدود کر دیتے ہیں اور یوں سوسائٹی میں موجود دیگر سنگین مسائل اور ایشو ز کو منظر عام سے غائب ہی کر دیا جاتا ہے اور محض ان سوشل میڈیا ٹرینڈزخواہ وہ ٹیویٹر،فیس بک ،انسٹا گرام،یو ٹیوب ،ٹک ٹاک یا سنیک ویڈیوز وغیرہ وغیرہ کی بنا پر سماجی ذمہ داران کی پہلو تہی چھپ جاتی ہے اور سوشل میڈیا ٹرینڈہی ٹاک آف دا ٹائون کا کردار ادا کرتا ہے اور اکثر اوقات یہ ٹاک آف دا ٹاون سطحی اور غیر اہم بھی ہوتی ہے اور اس سطحی اور وقتی رجحان کی بدولت شہریوں کے اصل اور بنیادی مسائل اور انکی آواز کہیں دب کر رہ جاتی ہے دور مت جائیں آپ پاکستان کو ہی دیکھ لیں پچھلے چند ہفتوں سے سیاسی محاذ آرائی کے نتیجہ میں بننے والے اور مصنوعی طور پر بناے جانیوالے سوشل میڈیا ٹرینڈز اور پھر اسکے نتیجہ میں سیاسی جماعتوں اور انکے کارکنان کے مابین پیدا ہونیوالے ہیجان یہ باوار کروا رہے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کے کوئی اور مسائل ہے ہی نہیں ماسوائے سیاسی اور جمہوری جنگ کے ان ٹرینڈز کے طاقتور ہونے کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیںپاکستانیوں کا اصل مسئلہ جو کہ مہنگائی اور بد انتظامی ہے اور جن میں تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے دوران تین سے پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے وہ مہنگائی محض سوشل میڈیا ٹرینڈز کی وجہ سے پیچھے اور سیاسی مسابقت اور جمہوری عدم استحکام جو کہ ثانو ی حیثیت رکھتا ہے وہ پہلے نمبر پر آگیا اور یہی وجہ ہے کہ شہریوں کے رویوں میں لگاتار تنائو کا اضافہ ہو رہا ہے اور جمہوریت کے نام پر اس سیاسی کھینچا تانی کے نتیجہ میں حکمران خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہواپنے شہریوں کی جان مال اور بنیادی ایشوز کے حل کیلئے انقلابی اور دیر پا اقدامات اٹھانے کی بجائے اپنے اقتدار کی بقا کی جنگ میں جتے رہتے ہیں اور خواری شہریوں کا مقدر بن جاتی ہے چند روز قبل صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل مہیڑ کے گوٹھ (گاوں) فیص محمد چانڈیو کے آتشزدگی کا شکار ہونیوالے اندوہناک واقع میں9 معصوم بچے جل کر موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ دو سو کے قریب مال مویشی جن میں بکریا ں اور بھینسیں بھی شامل ہیں جل کرہلاک ہو گئے اور زخمی دیہاتیوں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے 1500سے 2000 کے قریب آبادی پر مشتمل یہ گوٹھ جل کر مکمل خاکستر ہو گیا اس دلخراش واقع نے پاکستان بھر کے شہریوں کو غمناک کر دیا اور اور بدلے میں غصہ و رنج کی لہر کا بلند ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے اس طرح کے نا گہانی واقعات پر آنسو بہانے کے بعد جلد ہی سب بھلا دیا جاتا ہے اور پھر یہ تمام واقعات قصہ پارینہ بن کر اذہان انسانی سے ہویدا ہو جاتے ہیں جان لیوا اور قیامت صغریٰ برپا کرنیوالی اس آتش زدگی کے پس پردہ عوامل کا پردہ چاک کریں تو دل خون کے آنسو روتا ہے دادو کی تحصیل مہیڑ موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا حلقہ انتخاب بھی رہا ہے جبکہ وہ خود دادو شہر سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کی انتظامی بدحالی کا یہ عالم کے بارہ گھنٹوں تک آگ کی لپٹوں میں خاکستر ہونے والے گائوں کی تحصیل میں ایک فائیر بریگیڈ اسٹیشن ہے اور وہاں پر موجود واحد ا گاڑی بھی خراب تھی اور دادو اور حیدر آباد فائر بریگیڈ کو بلانا پڑاجہاں صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے آبائی شہر کا یہ حال ہے وہا ںصوبہ بھر کے دیگر شہروں کی تحصیلوں کا کیا عالم ہو گا یہ ایک الگ المیہ ہے لیکن انتظامیہ کا بارہ گھنٹے قبل اطلا ع کے باوجود قدم نہ اٹھانا اور جوں نہ رینگناانسانی مردہ ضمیری کا دوسرا بڑاسانحہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی پچھلی قریبا تین دہایئوں سے سندھ کی حکمران ہے اسکے سٹیک ہولڈرز مرکز میں حکومتیں گرانے اور لانے میں اس قدر مصروف مشغول رہتے ہیں کہ حادثات سے نبٹنے کیلئے پیش وقت نہ ہی کوئی منصوبہ ہے اور نہ کوئی تدراک ہے البتہ زبانی جمع خرچ میں پرفارمنس شو کر نے میں انکا کوئی ثانی نہیں اس واقع میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مثال ایسی ہی ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا دادو کا گوٹھ جل رہا تھا اور صوبائی حکومت سندھ اور پی پی پی کی مرکزی قیادت سیاسی شطرنج پر مہرے چلنے میں مصروف مشغول تھے پاکستان پیپلز پارٹی کا سلوگن ’’ایک زرداری سب پر بھاری ‘‘بڑا بڑھ چڑھ کر بولا جاتا ہے مگر کیا ایک زرداری کی مینجمنٹ بھی دیگر صوبوں کے مقابلہ میں سب پر بھاری ہو سکتی ہے؟کم از کم اعلی انتظامی امور میں سندھ حکومت سبقت نہیں لے جا سکتی تو پنجاب کی نقل ہی کر لیتی جہاں تحصیل کی سطح پر ہنگامی صورتحال میں 1122ریسکیو بڑی عمدگی سے خدمات انجام دے رہا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...