رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جو نیکیوں کا موسم بہار کہلاتا ہے جس میں نیکی کرنا آسان اور برائی کرنا مشکل ہوتا ہے ہر طرف ایک تقدس کی چادر تنی ہوتی ہے اور پورے مسلم معاشرے پر اس نے سایہ کیا ہوتا ہے، اہل ایمان کے لیئے جنت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، اس ماہ مبارکہ میں یہ کیسا غضب ہو رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقدس ایوانوں میں عزت والے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں، میڈیا کے کیمروں کے سامنے خود بھی بے توقیر ہو رہے ہیں اور اپنے ہم منصبوں کو بھی بے توقیر کر رہے ہیں، منتخب نمائندگان جو کہ آئین اور قانون بنانے والے ہیں خود ہی آئین اور قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں، آئین اور قانون کی پاسداری اسمبلیوں کے طا قوں اور دریچوں کے پیچھے منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور یہ حضرات لڑائی جھگڑوں اور مار پیٹ کے ذریعے قوم و ملک کی تقدیر بدلنے پر بضد ہیں،ان نمائندگان کے بارے میں ہمارا گمان رہا ہے کہ یہ آئین پاکستان کی شق 62 اور 63 پر پورا اترنے والے ہیں لیکن افسوس ان دنوں ان لیڈران کرام کا عمل ان دفعات کے خلاف ہے یہ اپنے حلف،ایوان کے تقدس اور ایک دوسرے کے وقار اور حیثیت کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں، ایسا نظر آرہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی زوال کی پستیوں میں گر چکے ہیں اور ہمارے یہ قائدین اس معاملے میں بھی ہمارے رہبر اور رہنمائی کا فریضہ کما حقہ ادا فرمانے کا تہیہ کر چکے ہیں، سیاست میں اختلاف حدود سے تجاوز کر جائے تو اچھی روایات اور اخلاقیات دم توڑ جاتی ہیں اور ملک انارکی اور افرا تفری کا شکار ہوجاتا ہے، مقدس ایوانوں میں بیٹھنے والے عوام کے منتخب نمائندے جس قسم کی اخلاقیات کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ انکے مقام، مرتبے اوران سے وابستہ قوم کی آرزوئں کے بلکل برعکس ہے، اپنے ہم منصبوں کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال، رویوں میں عامیانہ پن اور تہمت زنی کا غلبہ، ایک دوسرے کی تذلیل کو سیاسی غلبے کے لیئے بطور ہتھیار استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وطن عزیز کسی بڑے حادثے کی طرف بڑھا جارہا ہے، بد قسمتی سے سیاسی منظر نامے پر اہل خیر کم ہیں اور دنیا اور اقتدار کی ہوس والوں کا جم غفیر ہے، اس سنجیدگی اور حکمت عملی کا فقدان ہے جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو سکے اور غربت، بد امنی، بے روز گاری کے عفریت کا قلع قمع ہو سکے، اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے ساتھ ساتھ ملک کے دفاعی اور انصاف کے اداروں کو بھی بتدریج متنازع بنا رہے ہیں، یہ زمہ دار لوگ اس حد تک غیر زمہ دار انہ رویوں کا شکار ہو چکے ہیں کہ پاکستان کے داخلی اور خارجی حساس معاملات کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیئے الجھا نے سے بھی باز نہیں آرہے، یہ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کر کے ایک خطرناک سیاسی جنگ کو ہوا دے رہے ہیں اگر یہ اپنی ناعاقبت اندیشانہ روش سے باز نہ آئے اور اس نفرت انگیز جنگ نے وسعت اختیار کر لی تو خدا نخواستہ وطن عزیز بھی شام جیسی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے، قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہی جن رویوں نے جنم لیا ہے وہ تحریک کی کامیابی کے بعد اور جناب عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے نتیجے میں دن بدن مستحکم ہوتے نظر آرہے ہیں یہ کسی طور بھی جمہوریت اور ملکی سلامتی کے لیئے مثبت رویے نہیں ہیں، پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقعے پر جس طوفان بد تمیزی کا مظاہرہ کیا گیا وہ ہمارے ملک کے منتخب اداروں کے مستقبل اور ان کے نمائندوں کی اخلاقیات پر سوالیہ نشان ہے، پنجاب اسمبلی میں ایسا تکلیف دہ منظر دیکھا گیا ہے جسے دیکھ کر یوں معلوم ہوا کہ مقدس ایوان میں عوام کی امنگوں کے ترجمان نہیں غارتگر گھس آئے ہوں جنھوں نے ہر چیز کو تہس نہس کرنے کا تہیہ کر رکھا ہو۔اس موقعے کو جس بد زوقی سے استعمال کیاگیا وہ ہماری جمہوریت کے لیئے کسی بھی طور قابل فخر نہیں، بالخصوص خواتین ممبران جن سے نرمی اور شفقت کے رویئے کی توقع کی جاتی ہے اور فطری صلح جوئی کی امید ہوتی ہے کا رویہ اپنے مخالف اراکین کے خلاف اخلاق اور معقولیت سے فروتر اور کسی لحاظ سے بھی ان کے شایان شان نہیں تھا، مرد حضرات جس طرح باہم دست و گریباں ہوئے وہ قابل افسوس بھی تھا اور قابل مزمت بھی، ایسا رویہ جمہوری معاشرے،
آئین و قانون، انسانی اخلاقیات اور آزاد قوم کی روایات کے بر عکس تھا ہمارے عوامی نمائندگان اپنے منفی طرز عمل کی بدولت اپنے عوامی نمائندگی کے حلف کا پاس کرتے ہوئے نہیں دکھ رہے تھے، ان کا طرز تکلم اور انداز دیکھ کر ایک مایوسی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔قائد ایوان کے انتخاب کے سیدھے سادھے عمل کو غیر ضروری طور پر جان بوجھ کر اختلافی بنایا جا رہا تھا اس طوفان بدتمیزی کا نقطہ عروج وہ لمحات تھے جب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کو اپنیفرائض منصبی ادا کرنے سے زبردستی روکا گیا، ان کے بال کھینچے گئے اور معزز اراکین نے باہم دست و گریبان ہو کر اپنا وقار اور مقدس ایوان اور جمہوریت کا تقدس مجروح کیا یہ ہمارے منتخب ادارے کے نمائندگان کے لیئے شرم کا مقام ہے کہ بزرگ سیاستدان اور وزارت اعلی کے امیدوار چوہدری پرویز الہی صاحب کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جسکے نتیجے میں مبینہ طور پر ان کا بازو ٹوٹ گیا اس فعل شنیع کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے یہ ہماری روایات اور اخلاقیات کے زوال کی انتہا ہے کہ نہ تو چوہدری صاحب کی عمر کو ملحوظ رکھا گیا اور نہ ہی انکے مرتبے اور مقام کو اور نہ ہی ان کے مخالفین میں سے کسی ذمہ دار فرد نے معذرت کا اظہار کیا، وہ اس توہین آمیز رویئے کے مرتکبین کو جس انداز سے بد دعائیں دے کر اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے تھے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے خواص بھی ہمارے عوام ہی کی طرح اپنے سے زیادہ زور والوں کے سامنے بے بس ہیں اس کا دوش اس نظام کو ہی دیا جا سکتا ہے جس کے سائے میں ہم زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔