لاہور ( کلچرل رپورٹر) پاکستان فلم انڈسٹری کے شہنشاہِ ظرافت اور بے ساختہ اداکاری سے مسکراہٹیں بکھیرنے والے اداکار منور ظریف کی 46ویں برسی 29اپریل کو منائی جائیگی ۔ منور ظریف 25دسمبر 1940ء کو پیدا ہوئے ۔مزاح کا فن انہیں وراثت میں ملا تھا، انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز1961ء میں فلم ’’ڈنڈیاں’’ سے کیا۔منور ظریف 29اپریل 1976ء کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جس کے بعد ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔تاہم 1973ء میں وہ پہلی بار اردو فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ میں سائیڈ ہیرو کے روپ میں سامنے آئے اور اسی سال ایک اور فلم ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘کی کامیابی نے انہیں سپر سٹار بنا دیا۔مگر ان کے کیریئر کی لازوال فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ رہی جس میں منور ظریف نے مختلف گیٹ اپ کئے اور اپنے ورسٹائل اداکار ہونے کی مہر ثبت کردی۔منور ظریف جب سکرین پر جلوہ گر ہوتے تو لوگ ان کی باتوں پر لوٹ پوٹ ہوتے دکھائی دیتے۔بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیا، شیدا پستول، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام، بندے دا پتر اور اج دا مہینوال ان کی ایسی ہی لاتعداد فلموں میں سے چند کے نام ہیں، ان کی آخری فلم لہودے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔جبکہ 1973،1971اور 1975میں انہیں عشق دیوانہ، بہارو پھول برسا اور زینت میں بہترین مزاحیہ اداکاری پر نگار ایوارڈ دیئے گئے۔رنگیلا اور منور ظریف کی فلمی جوڑی کو فلم کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا۔منور ظریف ایک بہت باصلاحیت اداکار تھے، انہوں نے اپنی بے ساختہ اداکاری کی وجہ سے بہت جلد فلمی دنیا میں اپنا مقام بنالیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ اردو اور پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے 15 سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے 321 فلموں میں کام کیا یعنی اوسطاً ہر سال ان کی21 فلمیں ریلیز ہوئیں۔