ملک شیر افضل
کتاب کی قدر و منزلت اور اہمیت و افادیت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی کیونکہ کتابیں علوم کے ذخائر ہیں اور علوم کے متلاشی ہمیشہ ان ذخائر کی تلاش میں محو جستجو رہتے ہیں۔ کتاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ کتاب کو کبھی مٹی کی تختیوں،پیپرس کے رول،ہڈیاں چمڑے یا جھلی کاغذ اور آ خر میں الیکڑانک فارمیٹ ای بکس میں لکھا گیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کتاب کی اہمیت اس وقت بھی کم نہ تھی جب کاغذ موجود نہ تھا۔ لہذا دور حاضر میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت کتاب کی چھپائی صرف کاغذ پر منحصر نہیں رہی بلکہ اب کتاب کوایک بک کری ایئٹر انٹرنیٹ اور بک ریڈر کینڈل ڈیوائس کے ذریعے ڈیجیٹل فارمیٹ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے علم کے ان خزانوں تک رسائی آسان سے آسان تر بنا دی ہے اور کتب کو گلوبل ویلیج سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ای بکس کا سمندر پیش کردیا ہے جس کی بدولت علم کے پیاسے کماحقہ سیراب ہوسکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ جب کوئی شخص 10 کتابیں پڑھ لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ 10ہزار میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ائونس گیلیوس کہتے ہیں کتابیں خاموش استاد ہیں۔ فرانس کافکا کہتے ہیں کہ ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم روح کے بغیر۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کرتا تو تیسرے دن اسکی گفتگو میں وہ لذت اور شیرینی باقی یعنی اس کا انداز تکلم تبدیل ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کتاب کے مطالعہ سے ہمیں ٹھوس دلائل سے بات کرنے کا سلیقہ و طریقہ آ جاتاہے۔ دْنیا کے تقریباََ 100سے زائد ممالک میں 23اپریل کو کتاب کا عالمی دن اور حقوق ملکیت دانش کا دن منایا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں یہ دن 4مارچ کو منایا جاتا ہے۔کتابوں کے عالمی دن کا آغاز سپین میں 1616ء میں ہوا۔سپین کے شمال مشرق کے علاقہ کیٹو لینیا ہیاوراسکادار الحکومت بارسلونا داستانی شہر ہے اس میں ہر سال 23اپریل سے 25اپریل تک لوگ اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھْول پیش کرتے تھے اور اس کے جواب میں خواتین کتابیں پیش کرتی تھیں۔اس دوران جگہ جگہ مشہورناول ڈان کیہوٹی کے حصے ،شیکسپئر کے ڈرامے اوردوسرے مصنفین کی کتابوں کے ڈرامے پڑھے جاتے تھے۔ڈان کیہوٹی کے حصے عرصہ 1616ء سے ہی ملتا ہیاور یہ سلسلہ ڈان کیہوٹی کیمصنف میگوئیل سروا نیس کے انتقال سے ہی شروع ہوا۔اسی سال اسی تاریخ کو شیکسپئر اور بیروکے ناول نگار اورشاعر گاسلاسوڈالا ویگا کا بھی انتقال ہوا اور اس میں کچھ اور ادیبوں کے یوم پیدائش اور انتقال کو بھی شامل کر لیا گیا۔جس میں‘‘لولیتا’’ کے مصنف نویو کوف بھی شامل ہیں۔ اس میں ایک اضافہ کیا گیاکہ رواں صدی کے آغاز سے کسی ایک شہر کو کتابوں کاعالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ابتداء میں میڈرڈ تھااورپھر بالترتیب سکندریہ،نئی دہلی،مونٹر یال، ٹورن، بگوٹہ، ایمسٹرڈم اور بیروت دارلحکومت قرار دیئے گئے۔برطانیہ میں اس دن کے لیے مارچ کی پہلی جمعرات کا انتخاب کیا گیا اور اسے سکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنیکی عاد ت کو فروغ دیا گیا۔ایک دور تھاجب اندلس اور بخارا،علم وادب کی تہذیب کے مرکز تھے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے عظیم سائنسدان پیدا کیے اور دْنیا پر حکومت کی لیکن جب ہم نے کتاب سے رْخ موڑا اور ہماری کتابوں سے یورپ نے ترجمے کروا کر علم حاصل کیا تو ہم پستی میں چلے گئیاب ہم یورپ کے تعلیمی غلام ہیں۔ہرچھپنے والی اچھی کتْب سائنسی و فنی علوم یورپ،امریکہ سے ہی پرنٹ ہوتی ہیلہذاہم خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔شاید اسی موقع کے لیے حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا تھا "مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا"۔کتاب کا تعلق انسان سے کافی پْرانا ہے کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے بلکہ یہ انسان کے علم وہنر، ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔انسانی زندگی کتاب کے بغیر ادھوری ہے کیونکہ کتاب اسی وقت چھپ گئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بذریعہ وحی فرمایا تھا اَقراء بسم ربک الذی خلق پڑھ اللہ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ نے دْنیا کے تمام علوم کو اس میں سمودیا۔تمام دْنیاوی کتابیں اور علوم اس قرآن مجید کا جزو ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کتاب کی وجہ سے مذہبی، معاشرتی، اخلاقی انقلاب برپا ہوا۔یہ وہ کتاب ہے جو سمجھے بغیر دْنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور پرنٹ ہوتی ہے۔سب سے بڑی بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے قیامت تک اس میں ردو بدل نہیں ہو سکتا اور میں یہاں لائبریرین کو بھی خوش نصیب ہی کہوں گا کیونکہ لائبریرین بھی اس کتاب کامحافظ ہے۔کتاب کا عالمی دن منانے کا مقصد معاشرہ میں اسکی اہمیت کو اْجاگر کرنا ہے۔پاکستان میں اس دن پر نہ صرف معلوماتی سیمنار منعقد کروانے کی اشد ضرورت ہے بلکہ اسے حکومتی سطح اور نجی سطح پر عوام میں کتاب پڑھنے کے شعور کو بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے اندر ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسرے کتاب کے مطالعہ کو انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی کافی نقصان اْٹھانا پڑاہے۔لیکن اس کے باوجود لائبریری میں کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کم نہ ہوئی۔قائداعظم لائبریری پاکستان کے دل لاہور میں واقع ہے جسے کتابوں کا وائیٹ ہاوس بھی کہا جاتا ہے۔اپنے خوبصورت ماحول اور بہترین خدمات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔اس میں کتاب دوست اتنے لوگ آتے ہیں کہ اتنی بڑی عمارت ہونے کے باوجود قارئین کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ کاشف منظور ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب ایک کتاب دوست شخصیت ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل کی خصوصی کاوش سے قارئین کے لیے ان کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق کتب کی خریداری کا سلسلہ شروع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اگر قائد اعظم لائبریری لاہور کاوزٹ کریں تو صوبہ ،بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پورے پنجاب سے قارئین قائد اعظم لائبریری میں مطالعہ کی پیاس بجھانے نظر آئیں گے۔بعض اوقات تو لائبریری میں قارئین کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔قائداعظم لائبریری کی ایک خاصیت ہے کہ یہ ایک ریسرچ اینڈ ریفرنس لائبریری ہونے کے ساتھ ساتھ پبلک لائبریری ہونے کا درجہ بھی رکھتی ہے اپنی خوبصورت بلڈنگ کے ساتھ ایک خوبصورت پارک باغ ِ جناح میں واقع ہے جہاں ہر وقت پھْولوں کی خوشبو کے ساتھ کتابوں کی خوشبو بھی دمکتی رہتی ہے۔پاکستان کی واحد یہ لائبریری ہے جس میں سی۔ایس۔ایس اور پی۔سی۔ایس کی کتابیں ہر وقت ملتی ہے کیونکہ اس لائبریری سے کتابیں ایشو نہیں ہوتیں۔
ایک سروے کے مطابق صرف پنجاب کے اندر تقریباََ 300 سے زیادہ پبلک لائبریریز موجود ہیں لیکن وہ کسی ایک باڈی کے زیر سایہ کام نہیں کر رہی ہیں۔کچھ لائبریریز ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب کے زیر سایہ کام کر رہی ہیں اور کچھ لائبریریز اٹانومس باڈی کے تحت اور 21 ای۔ لائبریری پنجاب کے مختلف اضلاع میں سپورٹس بورڈ کے زیرسایہ، کچھ میونسپل کارپوریشن کے زیر سایہ کام کررہی ہیں۔حالانکہ پنجاب میں ارکائیوز اینڈ لائبریریز ڈیپارٹمنٹ موجود ہے اگر ان تمام پبلک لائبریریز کو ڈیپارٹمنٹ آف لائبریریز اینڈ آرکائیوز کے زیر سایہ کر دیا جائے تو ان لائبریریز کی سروسز کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اگر پاکستان کے اندر خاص طور پر کتاب کی انڈسٹری کو مراعات دی جائیں اور کاغذ کو سستا کرنے، پبلشرز اور مصنف کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کتاب سے دوستی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔