ایرانی صد ر رئیسی کا اسرائیل سے کشیدگی کے بعد دورہ پاکستان اہمیت کا حامل

عبدالستار چودھری 
abdulsattar.ch@gmail.com 
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کر کے واپس جا چکے ہیں،اس اہم موقع پر دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے سمیت متعدد معاہدوں کے ایم ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔اس دورے میں ایرانی خاتون اول بھی ان کے ہمراہ تھیں جنہوں نے دورے کے ایام میں مصروف ترین وقت گزارا،پاکستانی خواتین سے خطاب کیا، اوریتیم بچوں کے ادارے پاکستان سویٹ ہوم کا دورہ کر کے فلسطینی بچوں کی بے بسی کی منظر کشی اور ان کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔
 ایرانی صدر وفاقی دارالحکومت کے علاوہ لاہور بھی گئے جہاں انہوں نے علامہ اقبال کے مزارپرحاضری دی اورگورنر و وزیراعلیٰ سے ملاقاتیں کیں۔وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ایئر پورٹ پر معزز مہمان گرامی کا خیر مقدم کیا۔  ایرانی مہمانان نے جی سی یونیورسٹی کا بھی خصوصی دورہ کیا۔ ان کا دورہ پاکستان اور خطے کے حالیہ واقعات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ابراہیم رئیسی ایسے ماحول میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے، ایران اور اسرائیل جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی تنصیبات پر راکٹوں سے حملے کر چکے ہیں۔  خطے کے بیشتر ممالک جب ایران کے ساتھ کھل کر پوزیشن لینے میں پس وپیش کا شکاردکھائی دے رہے، پاکستان اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے جو کہ براہ راست ثالثی کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود ایران کی سفارتی حمایت میں اپنا موقف بار بار واضح کر چکا ہے۔ حال ہی میں سعودی وزیر خارجہ کی سربراہی میں اعلی سطحی وفد نے پاکستان کا کامیاب دورہ کیا اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس بریفنگ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جاری حملوں کی نہ صرف کھل کر مذمت کی بلکہ اسے جنگی قوانین کی خلاف ورزی بھی قرار دیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے شام میں ایرانی سفارتکاروں پر اسرائیلی حملے کی بھی مذمت کی اور ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کو اپنے دفاع کا حق استعمال کرنا قرار دے چکا ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین تاریخی تعلقات ہیں اور اس تاریخی پس منظر میں ایرانی صدر کا حالیہ دورہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی نئی حکومت کے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد یہ کسی بھی غیر ملکی سربراہ کا پہلا دورہ پاکستان ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے بعد ایرانی صدر بھی پہلے غیر ملکی دورے پر پاکستان آئے ہیں جسے خود ایرانی وزارت خارجہ بھی انتہائی اہم قرار دے رہی ہے۔ پاک ایران تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1948 میں ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا جبکہ 1979 ء میں ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے بانی ء انقلاب امام خمینیؒ کی زیر سرپرستی بننے والی حکومت کو تسلیم کیا۔پاکستان اور ایران کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر 2013 ء تک ایک فوجی بھی تعینات نہ تھا۔بعد میں باہمی رضامندی سے چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے 1949ء میں ایران کا سرکاری دورہ کیا جبکہ شہنشاہ ایران نے 1950ء میں پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔ 1965 ء اور 1971ء  کی جنگوں کے دوران بھی ایران پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔ انقلاب ایران سے پہلے پاکستان اور ایران ایک ہی عالمی کیمپ کا حصہ تھے لیکن انقلاب ایران کے بعد علاقائی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایران مغرب مخالف کیمپ میں جا کھڑا ہوا جبکہ عرب دنیا کیساتھ اس کے تعلقات کو بھی عرب و عجم کی تاریخی آویزش کے تناظر میں دیکھا جانے لگا۔ ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ ملا اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک نے بھی پاکستان میں اپنی پراکسیز قائم کیں۔امریکہ اور عالمی اداروں کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں جب ایران پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ کیساتھ سفارت کاری کیلئے اسے اپنا چینل استعمال کرنے دیا۔2014ء￿  میں اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے ایک غیر رسمی گفتگو میں کہا تھا کہ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے امریکہ میں ایران کی جگہ سفارت کاری کرتے آرہے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس تک ایرانی پیغام پاکستانی چینل کے ذریعے ہی پہنچایا گیا تھاجس میں ایران نے کہا تھا کہ وہ پرامن مقاصد کیلئے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کا خواہش مند ہے۔ مارچ 2013ء میں پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا آغاز ہوا اور ایران نے اپنی طرف سے 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کر لیا ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک یہ پائپ لائن محض گوادر تک ہی نہیں پہنچ سکی جبکہ اسے نواب شاہ تک لے جانا  پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کے خدشے کے پیش نظر کوئی بھی مالیاتی ادارہ نہ تو اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی کوئی تعمیراتی کمپنی اس منصوبے پر کام کرنے کیلئے رضامند ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین سرد مہری کا آغاز اس وقت دیکھنے میں آیا جب مئی 2016 ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کیلئے انڈیا ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی 550 ملین ڈالر کا فنڈ قائم کیا گیا۔ ایرانی سرحد سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے نیٹ ورک سے حاصل شدہ معلومات کے بعد یہ تعلقات مزید شکوک کا شکار ہوگئے۔ رواں سال کے شروع میں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائیوں کے بعد سفارتی تعلقات منقطع بھی ہوئے تاہم بعد میں سفارتی امور معمول پر آگئے ۔ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ان تعلقات میں سابقہ گرمجوشی واپس لانے اور اپنی عالمی تنہائی کا تاثر دور کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سفارتکاری کے رجحان میں اچانک خوشگوار اضافہ دیکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب، سعودی سرمایہ کاروں کا دورہ پاکستان، سعودی وزیر خارجہ اور اعلیٰ عسکری حکام کے پے درپے دوروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ ایرانی صدر کے دورے کے باوجود وہ پاکستان کو اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ حرمین شریفین اور لاکھوں پاکستانیوں کا ذریعہ روزگار ہونے کے باعث سعودی عرب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں خاص اہمیت حاصل ہے، پاکستان کے زرمبادلہ میں سعودی عرب کی طرف سے پارک کیے گئے اربوں ڈالرز کا بنیادی حصہ ہے۔ ایران کی طرف سے اعلیٰ سطحی دورے کے باوجود اگرچہ کسی بڑے  رد وبدل کا امکان ظاہر نہیں کیا جارہا تاہم پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ قربت میںمزید اضافہ ہوگا اور ان ممالک کے ساتھ دستخط کیے گئے معاہدوں میں سے نصف پر بھی عمل ہوگیا تو پاکستانی معیشت کو آکسیجن میسر آجائے گی ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...