بدلتی ہوئی عالمی اور اقتصادی صورت حال میں ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنے پہاڑوں اور زمین میں چھپے ہوئے سونے، تانبے، گیس اور تیل کے وہ ذخائر تلاش کریں جو وسیع پیمانے پر بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ ان معدنی ذخائر کی دریافت ہمیں کھرب پتی بنا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں جو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے، حصولِ قرض کے لیے نہ ماننے والی کڑی شرائط عائد کرتا ہے، اْس سے بھی ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی ہے۔
سب کا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پاکستان کی صورت میں ہمیں معدنی دولت سے مالا مال ایک اچھا خطہ عطاء کیا ہے جس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ یہ بے مثل ہے اور بے مثل رہنے کے لیے ہی وجود میں آیا ہے۔تاہم اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کے باعث ہم اسے تلاش نہیں کر سکے۔ اس میں دریا بھی ہیں، سمندر بھی اور ہر طرح کا موسم بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ گرمی، سردی، خزاں، بہار اور ساون بڑی ترتیب کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو اپنی یادوں کے انمنٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ غیر ملکی سیاح پاکستان کے موسموں کو پسند کرتے ہیں۔ ہر سال ہی سیاحت کے لیے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں جن میں یورپینز کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے اقتصادی حالات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہمیں پوری طرح اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ جیسے ہی آئی ایم ایف پروگرام میں آ جاتے ہیں، سانس لینا بھی ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کو پاکستان میں ہی تلاش کرنے نکلیں، تو ہمیں نہ صرف آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے بلکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں لوگ بھی اس ’’تلاش‘‘ سے مستفیدہو سکتے ہیں۔ ہماری غربت دور ہو سکتی ہے، روزگار آ سکتا ہے اور ہمارا سفر مفلسی سے خوشحالی کی طرف شروع ہو سکتا ہے۔
17مارچ کو چاغی میں تانبے کی تلاش کے لیے وسیع پیمانے پر پہاڑی سلسلوں میں کان کنی کی گئی تاکہ چٹانوں کا سینہ چیر کر اْس کے اندر چھپے تانبے کے ذخائر دریافت کئے جا سکیں۔ اس مشن میں انجینئرز اور کان کنوں کو بڑی کامیابی ملی اور یہاں موجود تانبے کے وسیع ذخائر مل گئے۔ عالمی منڈی میں تانبے کو ایک قیمتی دھات مانا جاتا ہے۔ فروخت پر خاصی قیمت وصول ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق چاغی کی ان چٹانوں میں 62فی صد تانبا ہے۔ دنیا میں تانبے کو ایک بڑی صنعت مانا گیا ہے۔ تانبے سے گھریلو استعمال کی اشیاء بنتی ہیں۔ خاص طور پر تانبے سے کھانے کے برتن تیار کئے جاتے ہیں۔ بیشتر لوگ دیگیں بھی تانبے کی دھات سے تیار کرتے ہیں۔ تانبا پاکستان میں چاغی، سینڈک، ریکوڈک، قلات، لسبیلہ اور ڑوب میں پایا جاتا ہے۔ چاغی اور لسبیلہ دنیا میں تانبا پیدا کرنے والے اہم شہر مانے گئے ہیں۔
گولڈ یعنی سونے کی بات کریں تو اس کے بھی کافی ذخائر پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ اہم ترین دھاتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا حجم بہت کم یا چھوٹا ہوتا ہے لیکن قیمت سب دھاتوں سے زیادہ ہے۔ دنیا کی تمام کرنسیوں کا اتار چڑھائو اسی دھات یعنی سونے سے متعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت اربوں ڈالر سونے کے ذخائر ہیں۔ سونے کی بڑی کانیں بلوچستان کے ضلع چاغی میں ہیں۔ غیر ملکی انجینئرز کے مطابق اس وقت چاغی کے پہاڑوں میں 200ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔ چاغی کو سونے کا سب سے بڑا ذخیرہ قرار دیا جارہا ہے۔ سینڈک میں سونے اور تانبے کے ثابت شدہ ذخائر 63سے 83ٹن ہیں۔
لوہا بھی پانچ اعلیٰ ترین معدنیات میں سے ایک ہے۔ جو پاکستان کے بعض پہاڑی سلسلوں میں بڑی تعداد میں موجود ہے۔ جس کا اندازہ 1,427بلین ٹن لگایا گیا ہے۔ لوہے کے اہم ذخائر ’’کالا باغ‘‘ میں موجود ہیں۔ چنیوٹ میں 350ملین ٹن لوہے کے ذخائر 2015ء میں دریافت ہوئے تھے۔ یہ ذخائر بڑی اقتصادی اہمیت کے حامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لوہے کی سالانہ پیداوار ریاست کی اندرونی ضروریات کے مقابلے میں کم ہے۔
مختلف ارضیاتی معائنوں سے پتہ چلتا ہے کہ لوہے کی جو نئی دریافت ہوئی ہے اْس کی مقدار 100ملین ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ لوہے کی تلاش کے لیے مزید کوششیں کی جائیں تو بلوچستان میں موجود کچھ دھاتیں پاکستان میں اسٹیل ملز کی صنعت کے ساتھ ہماری دیگر لوہے کی ضرورت کو بھی ملکی سطح پر پورا کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے معدنی ذخائر میں قیمتی پتھر بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جن کی عالمی منڈی میں اربوں ڈالر مالیت بنتی ہے۔ یہ ایسے ہیرے جواہرات ہیں جو پاکستان کو اپنی فروخت سے مالا مال کر سکتے ہیں۔ یہ انتہائی قیمتی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قیمتی ہیرے جواہرات سے نواز رکھا ہے۔ بہت سے دوست ممالک ان معدنیات کی دریافت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جن میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ ان ہیرے جواہرات میں پیریڈوٹ، ایکوامیرین، مختلف رنگوں کے پکھراج، زمرد، روبی، زینو ٹائم، اسفینی، ٹورمالائنز اور کوارٹز کی مختلف اعلیٰ اقسام شامل ہیں۔ 1979ء میں جیمس ٹون کارپوریشن نے ان پتھروں کو نکالنے، تلاش کرنے اور استعمال کرنے سے متعلق کام کیا۔ جیمس ٹون کارپوریشن نے پتھروں کی تلاش کے بعد اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں کان کنی کو آسان بنایا جائے۔ کیونکہ اس کی راہ میں بڑی مشکلات حائل ہیں۔ اس جیمس ٹون کارپوریشن کو 1997ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔
جپسم بھی ایک بہت اہم اور قیمتی معدنی وسیلہ ہے۔ جس کی زیادہ مقدار خیبر پختونخوا میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے والا 92فیصد جپسم خیبرپختونخوامیں ہی پایا جاتا ہے۔ اس کے ذخائر کا تخمینہ 5.5بلین ٹن ہے۔
پاکستان بین الاقوامی معیشت میں معدنی وسائل سے مالا مال ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اپنے چار موسموں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اس کی بہت ساری جغرافیائی خصوصیات ہیں۔ یہاں سارا سال غیر ملکی سیاحوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں ہماری معدنیات کی بہت مانگ ہے اور ہم اس کے ذریعے ہر سال اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیسی سیاسی مصلحتیں آڑے آتی ہیں اور ہم سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ کھربوں ڈالر کی قیمتی معدنیات کو کب اور کیسے تلاش کریں۔ غیر ملکی کمپنیاں اس تلاش میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن ہماری حکومت کی طرف سے ان کمپنیوں کو کوئی رسپانس نہیں دیا جاتا جس کے باعث تلاش کا معاملہ التواء میں رہتا ہے۔ اس وقت دنیا کو معیشت کا بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ ان میں پاکستان بھی وہ ملک ہے جسے معیشت کے بڑے چیلنج اور بحران کا سامنا ہے۔ ابھی ہم نے گیس اور تیل کی بات نہیں کی جس کے ذخائر بھی پاکستان میں بہت ہیں۔ سندھ بھی اب اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں سے بڑی مقدار میں تیل دریافت کیا جا سکتاہے۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس حوالے سے کام نہیں ہو پاتا اور ہم صرف باتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔
چین میں کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو پاکستان میں موجود معدنی ذخائر کی تلاش میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ سعودی عرب بھی اس حوالے سے اپنی دلچسپی کا اظہار کر چکا ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے ہم کوئی مثبت لائحہ عمل بنائیں تاکہ پاکستان کی تقدیر بدل سکے۔ یہاں بھی اچھے دن آ سکیں۔
ان خفیہ طاقتوں کو بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے ذخائر نہیں نکالنے دیتے اس لیے کہ کہیں پاکستان بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کر کے معاشی استحکام کی طرف نہ بڑھ جائے۔