نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم نے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کو ناکوں چنے چبوا کر دوسرا میچ جیت لیا
بے شک کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ جب دو ٹیمیں یا شخص میدان میں اترتے ہیں تو ایک کے سر فتح کا تاج سجتا ہے اور دوسرے کے حصے میں شکست آتی ہے۔ اسی لیے کھیل میں جب جوڑ برابر کا ہو تو فتح یا شکست کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بقول شاعر مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔مگر جب موجودہ صورتحال جیسی حالت سامنے ہو تو دکھ ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم نے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کو دوسرے ٹیسٹ میں بڑے آرام کے ساتھ ہرا دیا۔ یوں پہلا میچ پاکستان نے اور اب یہ دوسرا میچ نیوزی لینڈ نے جیت لیا اب ٹی 20 کی سیریز ایک ایک سے برابر ہے۔
تین میچوں کی اس سیریز کی فتح کا تاج کس کے سر سجتا ہے اس کا فیصلہ لاہور کے میچ میں آج ہو گا۔ میدان تیار ہے دونوں ٹیمیں لاہور آ چکی ہیں۔ دوسرے میچ میں ہماری ٹیم کی کارکردگی وہی رہی جس پر سب روتے رہتے ہیں۔ ناقص فیلڈنگ اور کیچ ڈراپ کرنے کی زریں روایات ہمارے کھلاڑی ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اب درد تو اٹھے گا۔ ابھی حال ہی میں ٹیم کا کپتان تبدیل ہوا ہے اس پر بھی لوگ باتیں کریں گے۔
آج کا میچ اگر پاکستانی ٹیم ہارتی ہے تو اس کے منفی اثرات ورلڈ چیمین شپ پر بھی پڑیں گے۔ لاہور میں بلے بازوں کو جان لڑانا ہو گی۔ بائولر تو فارم میں ہیں ہی۔ فیلڈنگ کے ذریعے میچ ہرانے والوں کو چارج کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر رکھیں اور ہاتھوں میں بنے سورج بند کریں جن سے گیند پھسل جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم کی کارکردگی عمدہ رہی ہے۔ ہماری قومی نمبر ون ٹیم بھی اپنی عزت کا خیال کرے اور اپنی خامیوں پر قابو پائے تاکہ بابراعظم کی کپتانی پر کوئی سوال نہ اٹھے اور ہوم گرائونڈ میں فتح کا جشن سب مل کر منائیں۔
لاہور ائیر پورٹ پر برطانوی شہری پر تشدد کرنے والا اہلکار معطل
دنیا بھر میں ائیر پورٹس پر تعینات سکیورٹی اہلکار اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ بداخلاقی اور دست درازی کرتے ہوئے اپنی خوبصورت وردی کی حرمت بھی بھول جاتے ہیں۔ نجانے یہ درشتگی ان میں کہاں سے در آتی ہے۔ دیارِ غیر سے آنے والے معصوم پاکستانی تارکین وطن ان کا خاص طور پر نشانہ بنتے ہیں۔ وہ ہر ایک تارک وطن کو واپس وطن آنے پر پلا پلایا دنبہ سمجھتے ہوئے اس کی کھال کھینچنے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں اور ان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے ہمہ وقت مستعد نظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ بدتمیزی ان کا ماٹو ہوتا ہے۔ ان کے سامان کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا حق سمجھتے ہیں۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو چلو کوئی بات نہ ہوتی بے عزتی برداشت کرنے کی ہم پاکستانیوں کو اک عادت سی ہے۔ جبھی تو سو جوتے اور سو پیاز والی مثال دیتے ہوئے ہمیں ذرا بھر بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ الٹا ہم مسکراتے ہیں۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے۔ یہ سکیورٹی اہلکار جو مسافروں کے تحفظ کے لیے تعینات ہوتے ہیں استقبال کے لیے آنے والوں کے ساتھ بھی ناروا توہین آمیز سلوک اختیار کرتے ہیں۔ چند روز پہلے ایک بچی کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔
اس ہلاکو ٹائپ کے ملازم کی معطلی کے باوجود دوسرے اہلکاروں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مگر اب لگتا ہے انہوں نے غلط جگہ ہاتھ ڈالا ہے۔ اس بار لاہور علامہ اقبال ائیر پورٹ پر سیکورٹی اہلکار نے ایک برطانوی شہری کو اپنی طاقت کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ درشت رویہ اپناتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ بات اوپر تک گئی برطانوی شہری نے متعلقہ حکام کے علاوہ اپنے سفارتخانہ سے بھی رابطہ کر کے شکایت درج کرائی تو ہلاکو بنے اہلکار کو فوری معطل کر دیا گیا مگر کیا یہ معطلیاں اس مسئلہ کا حل ہیں۔ جب تک ان اہلکاروں کو قانون اور تہذیب کے دائرے میں نہیں لایا جاتا انسانیت کا سبق نہیں پڑھایا جاتا یہ اپنے ادارے کے لیے باعث شرمندگی بنتے رہیں گے۔
سمگلروں کیخلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کسٹم کے 8 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ہوا۔
بدقسمتی سے بلوچستان اور خیبر پی کے میں لوگوں کی اکثریت سمگلنگ کو ایک جائز پیشہ قرار دیتی ہے اور اس سے کروڑوں روپے کماتے ہیں اگر یہ سمگلنگ اسلحہ، منشیات اور قیمتی الیکٹرانک اشیاء کی ہو تو رقم اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اب تو ایرانی پٹرول کی سمگلنگ بھی ایک اچھا خاصہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیوں کے علاوہ کنٹینرز بسیں اور گڈز ٹرک سے روزانہ کروڑوں کا مال اْدھر سے اِدھر ہوتا ہے۔ اب ذرا سختی ہوئی تو سمگلروں نے کسٹم اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ چند روز میں 8 کسٹم اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ اس سے حالات کی سنگینی کا احساس کیا جا سکتا ہے۔ مگر کیا کریں جو لوگ سمگلنگ کو پیشہ اور نماز کو فرض سمجھتے ہوں۔ ان کا علاج ڈنڈے کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر یہ کام آسان نہیں رہا۔
ہمارے کسٹم حکام اسی اپنی نرم پالیسی کی وجہ سے ارب پتی بن چکے ہیں۔ ایک عام کسٹم اہلکار کا رہن سہن اور گھر بار دیکھ لیں تو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ اس سمگلنگ کی بہتی گنگا میں کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ سب کسٹم اہلکاروں نے خوب ڈبکیاں لگائی ہیں اب خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ سمگلروں کا بھوت بوتل سے نکل کر بے قابو ہو چکا ہے۔ بااثر مافیا بن چکا ہے۔ جس کے سرپرست ان کے سہولت کار بن کر حکومتوں میں موجود ہیں تو پھر کسٹم اہلکاروں کو بچانے کون آئے گا۔ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جہاں لاقانونیت ہو ریاستی رٹ اور قانون کو چیلنج کیا جا رہا ہو وہاں آہنی ہاتھ استعمال کرے ورنہ آخری حل یہ ہے ایران اور افغانستا ن سے سمگلنگ کو قانونی حیثیت دیکر اس طرف سے آنکھیں بند رکھے اور سالانہ اربوں کا قومی خزانے کو نقصان پہنچنے دے…
کچھ عناصر سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ چین
یہ تو ایک تلخ حقیقت ہے۔ جبھی تو پاکستان اور چین کے درمیان اس جدید دیوار چین جیسی مضبوط دوستی کی علامت کے خلاف ابتدا ہی سے سازشیں ہوتی آ رہی ہیں۔ کبھی چینی دوستوں پر حملے کبھی دھرنے کبھی سی پیک کیخلاف منفی پراپیگنڈا ہوتا آ رہا ہے۔ ملک دشمن عناصر اور پاکستان دشمن ممالک اس کام میں پیش پیش ہیں۔ اس مقصد کیلئے سیاسی جماعتوں سے لے کر قوم پرست تنظیموں کو ٹارگٹ دیا گیا ہے۔ مگر خدا کے فضل سے ہماری سکیورٹی فورسز اور حکومتی ادارے سی پیک کے حوالے سے مستعد اور پرعزم ہیں۔ چین کو بھی ان پر پورا بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک پر کام اطمینان بخش طریقے سے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے بھرپور تعاون سے چل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سی پیک کے دشمن انگاروں پر لوٹ رہے ہیں اور لوٹتے رہیں گے۔ یہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا نشان ہے۔ ہماری ترقی کے دشمن کون ہیں سب جانتے ہیں سی پیک ہو یا چین و عرب ممالک سے تعلقات میں رخنہ ڈالنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
اب چین نے تو کھل کر اس پر اظہار کیا ہے کہ ان سازشی عناصر کی بونگیوں کے باوجود سی پیک اور پاک چین تعلقات مستحکم سے مستحکم ہوں گے۔ تاہم ابھی تک عرب ممالک نے صرف خاموشی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اب موجودہ حکومت کے آنے سے یہ برف پگھلی ہے تو امید ہے جلد ہی باقی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور سازشی عناصر کو منہ کی کھانا ہو گی۔