ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 

پس آئینہ 
خالدہ نازش 
بانجھ ذہنوں میں کچھ کر گزرنے کے خیال کا جنم ،دنیا کے ناممکنات میں سے ایک ہے۔ویسے تو کہا جاتا ہے ، دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ،، مگر اس ناممکن کو ممکن بنانا ہی ہم بہت سے لوگوں کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے - میرے خیال میں اس کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ ’’میں نہیں کر پاؤں گا یا کر پاؤں گی ،، اس لئے کہ ہم اپنی سوچ کو باندھ کر رکھتے ہیں اور صرف ایک حد تک ہی اسے ڈھیل دیتے ہیں ،یا پھر اتنا آزاد کر دیتے ہیں کہ فضول باتوں پر خرچ ہوتی رہتی ہے - سوچ کا تعلق عادت سے بھی ہوتا ہے ،جب ہمیں کسی ممکن کے بارے میں نہ سوچنے کی عادت پڑ جاتی ہے تو ہمیں دنیا کا ہر کام ناممکن ہی نظر آتا ہے - چنانچہ ہمیں کیا ضرورت ہے ناممکنات میں پڑنے کی ،دنیا میں ہمارے علاوہ اور بہت سے لوگ ہیں جو اس ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں ، یہ سوچ کر ہم اپنی بہت سی خواہشات کو پورا کرنے کی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہو جاتے ہیں ، کیونکہ ذمہ داری قبول کرنے کی صورت میں ہمیں اپنے اوپر بہت سی پابندیاں عائد کرنی پڑ جاتی ہیں ، بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے - ہمیں اپنے comfort zone  سے نکلنا پڑتا ہے ، ہمیں تنہائی چاہیے ہوتی ہے ، اور یہ سب سے مشکل کام سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم دنیا کی تمام بڑی بڑی ایجادات کے موجد لوگوں کی بائیو گرافی پڑھیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ ان سب لوگوں نے اپنے comfort zone   سے نکل کر تنہائی اختیار کی اور پھر دنیا کو shape  reکر دیا ، یہاں تک کہ پیغمبری بھی تنہائی میں ہی ملی ہے۔ میری ان باتوں سے یہ نہ سمجھیے گا کہ میں دنیا داری کو چھوڑ کر تنہائی اختیار کرنے کی ترغیب دے رہی ہوں ہرگز نہیں ، بلکہ میں تو یہ دکھڑا بیان کر رہی ہوں کہ ہمیں اتنی قیمتی زندگی اس جہاں میں بہت  محدود سوچ کے ساتھ ملی ہے جس میں خودی کی کھوج ، خودی کی تلاش اور خودی کو پا لینے کی سوچ کو ہم نے کی‘‘ گرہوں میں باندھ کے رکھا ہوا ہے جبکہ اقبال تو ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ،، کی بات کرتے ہیں ۔ کالم کے آغاز میں ان تمام باتوں اور اتنی لمبی تمہید کا مقصد میری ایک درینہ دوست کے کمنٹس ہیں جو اس نے میرا پہلا کالم پڑھنے کے بعد کیے ’’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ،، اس کے ان کمنٹس نے مجھے لکھنے کے لئے ایک نیا موضوع دے دیا ۔ اس کے کمنٹس کا جواب ہے کہ اس بانجھ ذہن میں کالمز لکھنے کے خیال نے ہی بہت دیر سے جنم لیا اور پھر اس خیال کو پال پوس کر جوان کرنے میں وقت لگا اور کچھ دیر خود سے یہ پوچھنے میں ہوئی کہ ’’ میں یہ کر پاؤں گی یا نہیں ،، اور پھر مزید دیر ماں کا دنیا سے چلے جانا جب ماں سے کہتی تھی کہ میں اخبار کے لئے لکھنا چاہتی ہوں تو انہیں بہت خوشی ہوتی تھی اور پوچھتی تھیں کہ کب شروع کرو گی ، مگر ان کے ہوتے ہوئے حالات کچھ ایسے تھے کہ اس کام کا آغاز نہ کر سکی پھر اور دیر کر دی کہ اب خوش ہونے والا کون ہے ۔ نامور شاعر جون ایلیا سے ان کی شاعری کی کتاب دیر سے شائع ہونے کے بارے میں کسی نے پوچھا تو جون ایلیا نے بتایا کہ ’’ میرے والد بھی شاعر تھے لیکن حالات ایسے تھے کہ وہ اپنی کتاب شائع نہ کرا سکے اور جب میں نے شعر کہنا شروع کیے تو انہوں نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ میں اس وقت تک اپنی کتاب شائع نہ کراؤں جب تک ان کی نہ کرا لوں اس طرح میری کتاب کو آنے میں دیر ہو گئی ۔ دیر کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جن میں ایک وجہ نامور شاعر منیر نیازی بھی ہیں جنہوں نے نظم ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں،، لکھ ان کاموں کے بارے میں بتایا ہے جن میں وہ ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں اور پھر ہم لوگوں کو جو پہلے ہی دیر سے سونے ، دیر سے جاگنے ، دیر سے سکول کالج یا کام پر پہنچنے ، دیر سے فیصلہ کرنے ، دیر سے ایکشن لینے یا retaliate کرنے دیر سے معافی مانگنے ، دیر سے وعدے پورے کرنے غرضیکہ ہر اچھا کام دیر سے کرنے کے عادی تھے ایک جواز دے دیا جسے ہم بھی اپنے ہر کام کی دیر میں پیش کرنے لگے کہ اگر منیر نیازی نے ہمیشہ دیر کی ہے تو ہماری دیر تو کوئی معنی ہی نہیں رکھتی ۔ دیر کی ان تمام وجوہات کو اگر ہٹا دیا جائے تو ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے ، ہماری سیدھے سیدھے کام کرنے کی عادت ، سیدھے سے مراد ایسے کام جن میں زیادہ تردد نہ ہو اگر ہم تھوڑے الٹے ہو جائیں تو شاید بہت کچھ سیدھا ہونا شروع ہو جائے ، اور اس کے لئے ہمیں باغی ہونا پڑے گا ۔ اس باغی کی طرح جس کے بارے میں ، میں نے بی اے کے نصاب میں شامل ایک نظم میں پڑھا تھا جس میں باغیوں کے رویے کو ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی دعوت دی گئی تھی ، اور بتایا گیا تھا کہ دراصل بغاوت دوسروں سے مختلف ہونے کی خواہش کا نام ہے۔ یہ باغی سب کام دوسروں کے برعکس کرتا ہے لوگ چھوٹے بال پسند کرتے ہیں تو باغی لمبے کرتا ہے ، اور اگر لوگ لمبے پسند کرتے ہیں تو باغی چھوٹے کرتا ہے۔ لوگ بول رہے ہوں تو یہ چپ رہتا ہے اور اگر لوگ چپ ہوں تو یہ بولنے لگتا ہے ، کتے پسند کرنے والوں میں یہ بلیوں کا ذکر کرتا ہے ، بلیوں کا ذکر ہو رہا ہو تو یہ کتوں پر بات شروع کر دیتا ہے ، لوگ کسی جلسے میں جا رہے ہوں تو یہ گھر پر کتاب پڑھنے بیٹھ جاتا ہے ، اور اگر لوگ گھر پر ٹھہریں تو یہ جلسے میں جانے کی تیاری کرنے لگتا ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس باغی کی طرح معاشرے میں باغیوں کا وجود ضروری ہے ، ورنہ ہم سب کا ایک جیسا ہو جانا ہی دوسروں سے مختلف ہونے کی خواہش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، اور جب میں نے بھی یہ سوچ لیا کہ اب سیدھے کی بجائے الٹا چلا جائے تو یہ لکھنے والا الٹا کام شروع کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن