اصغر علی گھرال ۔۔۔
میاں شہباز شریف دوسری مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ وہ ایک نیک نام حکمران ہیں۔ گزشتہ دور میں ان کے اچھے کارناموں کی یادیں اب تک عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ان کے دِل میں غریبوں کادرد ہے۔ اور وہ انکی حالت سنوارنے کے لئے خواب دیکھتے ہیں۔ منصوبے بناتے ہیں۔ عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے بیورو کریسی کے بے لگام گھوڑے کو لگام دی۔ سفارش سے اجتناب اور میرٹ کی پاسداری کا یہ حال تھا کہ محض چند نمبروں کے لئے بڑے بھائی کی بیٹی تک کو معاف نہیں کیا۔ اس لئے اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اتنی رکاوٹوں کے باوجود ان کو بطور وزیراعلیٰ دوبارہ پنجاب کی خدمت کا موقع ملنے میں غریبوں کی دعائوں کا بھی حصہ ہے۔ تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو۔
اس بار بھی وہ بڑی محنت کر رہے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے غریبوں کی حالت سنوارنے کے لئے بے شمار منصوبے بنا رکھے ہیں۔ جن پر بتدریج عمل کر رہے ہیں۔ غریبوں کو سستی روٹی مہیا کرنا۔ غریبوں کے لائق اور ٹیلنٹڈ بچوں کو سرکاری خرچ پر اعلیٰ تعلیم دلانا۔ پولیس ایسے محکمے کو عوام کا خدمت گار بنانے کی کوشش کرنا۔ عوامی نمائندوں کے احتساب سے سوسائٹی کو کرپشن سے پاک کرنا۔ انکی سربراہی میں صوبہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔
…………
دنیا میں پیغمبروں کی ذات پاک کے سوا کوئی انسان پرفیکشن کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہر انسان کے منفی اور مثبت پوائنٹ ہوتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے کردار کا مطالعہ کریں۔ تو انکی کیمسٹری یا مزاج میں ’’اعتدال‘‘ کی کمی نمایاں ہے۔ وہ جذبات میں اکثر افراط یا تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بلکہ بعض معاملات میں آپ ان کو انتہا پسند بھی کہہ سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا یہ بھی خیال ہے کہ خادم اعلیٰ کے لقب اور انکساری کے باوجود ان کے ذہن کے کسی گوشے میں ’’مغل شہنشاہ‘‘ بھی گھُسا بیٹھا ہے۔
…………
حال ہی میں انہوں نے میٹرک کے امتحانات میں اعلیٰ پوزیشنوں میں آنے والوں کو زبردست پروٹوکول دیا۔ گارڈ آف آنر‘ فائیو سٹار ہوٹل میں قیام‘ پرچم کشائی کی تقریبات میں عزت افزائی‘ انعامات سے لاد دیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پروگرام۔ ایک لائق اور غریب طالب علم کو غالباً وہ ہاتھی دینا چاہتے تھے۔ مگر کوئی کام کا ہاتھی دستیاب نہ ہونے پر اُسے 30 لاکھ کا چیک دیا۔ اب وہ سارے ذہین طالب علم جنہوں نے نوید آصف سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کئے۔ جو نوید آصف سے زیادہ غریب ہیں۔ ان میں بعض معذور تھے۔ وہ محرومی اور مایوسی کا شکار ہو گئے۔ اور انہوں نے پریس میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
اگر میاں صاحب صرف ایک گھر کی لاٹری نکلوانے کی بجائے۔ نوید آصف کو دو چار یا پانچ لاکھ بھی دے دیتے اور 25 لاکھ کو دوسروں کی بھی اجتماعی خوشی کے لئے تقسیم کر دیتے تو ایک توازن قائم ہو جاتا۔
ویسے تعلیم کے فروغ کے لئے صرف پوزیشن ہولڈرز کے شو شا کی نسبت صوبہ بھر کے پرائمری‘ مڈل اور ہائی سکولوں کی حالتِ زار پر زیادہ توجہ یک ضرورت ہے۔ ان میں سٹاف کو پورا کرنا۔ سائنس لیبارٹریز کو اپ ڈیٹ کرنا۔ سائنس ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹرز کی کمی کو جلد پورا کرنا ضروری ہے۔
…………
میاں شہباز شریف کے عدم اعتدال یا انتہا پسندی کی دوسری مثال پولیس کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ ہے یہ کسی کا مطالبہ تھا۔ نہ آج تک کبھی اس طرح کی ترقی یا اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’دگنی تنخواہ کر دینے سے مطلوبہ نتائج برآمد ہو گئے ہیں۔ کیا پولیس کی رشوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یا انکی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ اس کے برعکس صوبہ بھر میں تمام دوسرے سرکاری محکموں‘ جیل پولیس‘ ہائی وے پولیس‘ محکمہ تعلیم‘ صحت وغیرہ کے گورنمنٹ ملازمین میں شدید قسم کی محرومی کا احساس پیدا ہوا ہے کہ آخر انکی تنخواہوں میں کیوں اضافہ نہیں کیا گیا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کرپشن میں بدنامی کے سوا پولیس کو کون سے سرخاب کے پَر لگے ہوئے تھے کہ انکو اس غیر معمولی انعام کا مستحق گردانا گیا ہے۔ بلاشبہ اس عمل سے دیگر سروسز پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں!
…………
میاں صاحب کا تیسرا بڑا کارنامہ‘ جسکی بڑی دھوم ہے۔ غریبوں کو 2 روپے کی چپاتی مہیا کرنا ہے۔ (بلکہ نااہلی سے بحال ہونے کی خوشی میں انہوں نے ایک روپے کی روٹی کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ جو سِرے نہ چڑھ سکا)
ظاہر ہے۔ بازار میں پانچ روپے میں بکنے والی روٹی کو 2 روپے میں فراہم کرنے اور اسکے لئے انتظامات پر خزانے کو اربوں کا زیر بار کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس سکیم پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ پنجاب کی موجودہ آبادی 9 کروڑ سے زائد ہے۔ چار کروڑ سے زیادہ لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند مخصوص انتخابی حلقوں اور شہروں میں صرف چند لاکھ لوگوں کی سہولت کے لئے سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ اسکی نسبت ایک ہزار روپے ماہوار کا فوڈ سپورٹ پروگرام کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ صوبے کے آخری گائوں اور جھونپڑی تک غریبوں کے لئے یکساں باعثِ رحمت ہے اور اسے غریبوں تک پہنچانے کے لئے معمولی خرچ آتا ہے۔ اگر ڈاک سسٹم میں زیادہ خرابی محسوس کی گئی تو اسے بینکوں کے توسط سے فول پروف بنایا جا سکتا ہے۔ غریب آدمی کو سستے آنے کی شکل میں چاہے جتنا ریلیف دیں۔اس کے برعکس 2 روپے والی چپاتی حکومت کو آٹھ دس روپے میں پڑ رہی ہے اور اس پروجیکٹ پر حکومت کرنسی نوٹوں کے گٹھے خزانے سے نکال نکال کر جس بے دردی سے دہکتے تنوروں میں پھونک رہی ہے۔ اربوں کے اس بے جا اسراف کی مثال نہیں ملتی! میں سستی روٹی کا مخالف نہیں ہوں۔ غریب عوام کو سستی روٹی مہیا کرنے سے زیادہ اچھا کام اور کون سا ہے۔
…………
رسول پاک نے فرمایا ہے۔ علم سیکھو خواہ اس کیلئے چین بھی جانا پڑے۔ اسی طرح اگر عقل سیکھنے کیلئے ہمسایے کے گھر جانا پڑے۔ تو کیا مضائقہ ہے۔ اگر میاں صاحب کو سستی روٹی مہیا کرنے کا شوق ہے تو ہم ان کو صوبے کے 9 کروڑ لوگوں کے لئے سستی روٹی فراہم کرنے کا آسان نسخہ بتاتے ہیں!
میاں صاحب اپنی پہلی فرصت میں پڑوسیوں کے ہاں جائیں۔ سستی روٹی اور خوشحالی کیلئے بھارتی پنجاب کا وزٹ کریں۔ پہلے ان سے یہ دریافت کریں کہ جس ایکڑ زمین میں ہم ابھی تک 20 من سے زیادہ غلہ پیدا نہیں کر سکے۔ وہ لوگ 80 من فی ایکڑ پیداوار کیسے لے رہے ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ کوئی گیدڑ سنگھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ (جاری ہے)
ہم نے آپ سے کم زرخیز صوبے کے پانی کا انتظام کیا۔ ڈیموں‘ نہروں‘ راجباہوں‘ ٹیوب ویلوں کا جال بچھا دیا۔ کسانوں کو مفت یا بالکل سستی بجلی‘ کھاد‘ کیڑے مار دوائیں‘ ٹریکٹر دیگر زرعی آلات اور دنیا کے بہترین ترقی دادہ بیج مہیا کئے۔ چنانچہ بھارتی پنجاب آج ایک خوشحال ترین خطہ ہے۔ وہ بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی کفالت میں بھی مدد کر رہا ہے۔ ہمیں ایک فوجی ڈکٹیٹر 2 بڑے ڈیم بنا کے دے گیا۔ گزشتہ 40برس میں ہم تیسرا ڈیم نہیں بنا سکے۔ آج پانی اور بجلی کی کمی کے باعث ملک تباہی کے غار میں جا رہا ہے۔ زراعت اور صنعت دونوں تباہ ہو رہی ہیں۔ لاکھوں مزدور بے روزگار مسلسل لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور اجتماعی خودکشیوں کے جشن منائے جا رہے ہیں۔ ہم ان کو سستی روٹی سے پرچا رہے ہیں۔ ارضی ماہرین دہائی دے رہے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک کمی واقع ہو رہی ہے۔ اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے فوری بڑے سٹوریج نہ بنائے گئے تو خوفناک تباہی اور قحط کا سامنا ہے۔
انجینئر شمس الملک‘ جنرل (ر) زاہد علی اکبر اور تمام ملکی اور غیر ملکی ماہرین چیخ چیخ کر خبردار کر رہے ہیں کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اس میں تاخیر قومی خودکشی کے مترادف ہے!
آبی ماہرین نے نئی تجویز یہ دی ہے۔ اگر باقی صوبے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کریں۔ یا نخرے دکھائیں۔ تو پنجاب دریائے سندھ میں اپنے حصے کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نیچی سطح رکھ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کرے۔ سارا انفراسٹرکچر موقع پر موجود ہے۔ فزیبلٹی رپورٹ سے لیکر ریلوے ٹریک‘ پختہ سڑکوں‘ دفاتر کوارٹرز‘ مشینری عملے کی تنخواہوں وغیرہ پر اب تک 80 ارب خرچ ہو چکے ہیں۔
پنجاب کی حد تک یہ ڈیم ہنگامی بنیادوں پر دو‘ تین سالوں میں تعمیر ہو سکتا۔ دوسرے صوبوں نے جب اتفاق کیا۔ ڈیم کو ریز کر کے فل سائز تک لے جایا جا سکتا۔
حکومت پنجاب نے اس سال کے بجٹ میں بھی کالاباغ ڈیم کے لئے ٹوکن فنڈز مختص کئے ہیں۔ لیکن منافقت کی حد یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ سودے بازیوں کے باعث کالاباغ ڈیم کا نام تک زبان پر لانے سے گریزاں ہیں!
یہ شہنشاہ تنوروں کی تعداد میں اضافہ کر کے ‘ لوگوں کو بھکاری بنا کر اور خزانے کو آگ لگا کر سستی روٹی کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ سبحان اللہ۔
میاں شہباز شریف دوسری مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ وہ ایک نیک نام حکمران ہیں۔ گزشتہ دور میں ان کے اچھے کارناموں کی یادیں اب تک عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ان کے دِل میں غریبوں کادرد ہے۔ اور وہ انکی حالت سنوارنے کے لئے خواب دیکھتے ہیں۔ منصوبے بناتے ہیں۔ عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے بیورو کریسی کے بے لگام گھوڑے کو لگام دی۔ سفارش سے اجتناب اور میرٹ کی پاسداری کا یہ حال تھا کہ محض چند نمبروں کے لئے بڑے بھائی کی بیٹی تک کو معاف نہیں کیا۔ اس لئے اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اتنی رکاوٹوں کے باوجود ان کو بطور وزیراعلیٰ دوبارہ پنجاب کی خدمت کا موقع ملنے میں غریبوں کی دعائوں کا بھی حصہ ہے۔ تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو۔
اس بار بھی وہ بڑی محنت کر رہے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے غریبوں کی حالت سنوارنے کے لئے بے شمار منصوبے بنا رکھے ہیں۔ جن پر بتدریج عمل کر رہے ہیں۔ غریبوں کو سستی روٹی مہیا کرنا۔ غریبوں کے لائق اور ٹیلنٹڈ بچوں کو سرکاری خرچ پر اعلیٰ تعلیم دلانا۔ پولیس ایسے محکمے کو عوام کا خدمت گار بنانے کی کوشش کرنا۔ عوامی نمائندوں کے احتساب سے سوسائٹی کو کرپشن سے پاک کرنا۔ انکی سربراہی میں صوبہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔
…………
دنیا میں پیغمبروں کی ذات پاک کے سوا کوئی انسان پرفیکشن کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہر انسان کے منفی اور مثبت پوائنٹ ہوتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے کردار کا مطالعہ کریں۔ تو انکی کیمسٹری یا مزاج میں ’’اعتدال‘‘ کی کمی نمایاں ہے۔ وہ جذبات میں اکثر افراط یا تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بلکہ بعض معاملات میں آپ ان کو انتہا پسند بھی کہہ سکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا یہ بھی خیال ہے کہ خادم اعلیٰ کے لقب اور انکساری کے باوجود ان کے ذہن کے کسی گوشے میں ’’مغل شہنشاہ‘‘ بھی گھُسا بیٹھا ہے۔
…………
حال ہی میں انہوں نے میٹرک کے امتحانات میں اعلیٰ پوزیشنوں میں آنے والوں کو زبردست پروٹوکول دیا۔ گارڈ آف آنر‘ فائیو سٹار ہوٹل میں قیام‘ پرچم کشائی کی تقریبات میں عزت افزائی‘ انعامات سے لاد دیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے پروگرام۔ ایک لائق اور غریب طالب علم کو غالباً وہ ہاتھی دینا چاہتے تھے۔ مگر کوئی کام کا ہاتھی دستیاب نہ ہونے پر اُسے 30 لاکھ کا چیک دیا۔ اب وہ سارے ذہین طالب علم جنہوں نے نوید آصف سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کئے۔ جو نوید آصف سے زیادہ غریب ہیں۔ ان میں بعض معذور تھے۔ وہ محرومی اور مایوسی کا شکار ہو گئے۔ اور انہوں نے پریس میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
اگر میاں صاحب صرف ایک گھر کی لاٹری نکلوانے کی بجائے۔ نوید آصف کو دو چار یا پانچ لاکھ بھی دے دیتے اور 25 لاکھ کو دوسروں کی بھی اجتماعی خوشی کے لئے تقسیم کر دیتے تو ایک توازن قائم ہو جاتا۔
ویسے تعلیم کے فروغ کے لئے صرف پوزیشن ہولڈرز کے شو شا کی نسبت صوبہ بھر کے پرائمری‘ مڈل اور ہائی سکولوں کی حالتِ زار پر زیادہ توجہ یک ضرورت ہے۔ ان میں سٹاف کو پورا کرنا۔ سائنس لیبارٹریز کو اپ ڈیٹ کرنا۔ سائنس ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹرز کی کمی کو جلد پورا کرنا ضروری ہے۔
…………
میاں شہباز شریف کے عدم اعتدال یا انتہا پسندی کی دوسری مثال پولیس کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ ہے یہ کسی کا مطالبہ تھا۔ نہ آج تک کبھی اس طرح کی ترقی یا اضافہ ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’دگنی تنخواہ کر دینے سے مطلوبہ نتائج برآمد ہو گئے ہیں۔ کیا پولیس کی رشوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یا انکی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ اس کے برعکس صوبہ بھر میں تمام دوسرے سرکاری محکموں‘ جیل پولیس‘ ہائی وے پولیس‘ محکمہ تعلیم‘ صحت وغیرہ کے گورنمنٹ ملازمین میں شدید قسم کی محرومی کا احساس پیدا ہوا ہے کہ آخر انکی تنخواہوں میں کیوں اضافہ نہیں کیا گیا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کرپشن میں بدنامی کے سوا پولیس کو کون سے سرخاب کے پَر لگے ہوئے تھے کہ انکو اس غیر معمولی انعام کا مستحق گردانا گیا ہے۔ بلاشبہ اس عمل سے دیگر سروسز پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں!
…………
میاں صاحب کا تیسرا بڑا کارنامہ‘ جسکی بڑی دھوم ہے۔ غریبوں کو 2 روپے کی چپاتی مہیا کرنا ہے۔ (بلکہ نااہلی سے بحال ہونے کی خوشی میں انہوں نے ایک روپے کی روٹی کا بھی اعلان کر دیا تھا۔ جو سِرے نہ چڑھ سکا)
ظاہر ہے۔ بازار میں پانچ روپے میں بکنے والی روٹی کو 2 روپے میں فراہم کرنے اور اسکے لئے انتظامات پر خزانے کو اربوں کا زیر بار کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس سکیم پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ پنجاب کی موجودہ آبادی 9 کروڑ سے زائد ہے۔ چار کروڑ سے زیادہ لوگ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند مخصوص انتخابی حلقوں اور شہروں میں صرف چند لاکھ لوگوں کی سہولت کے لئے سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ اسکی نسبت ایک ہزار روپے ماہوار کا فوڈ سپورٹ پروگرام کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ صوبے کے آخری گائوں اور جھونپڑی تک غریبوں کے لئے یکساں باعثِ رحمت ہے اور اسے غریبوں تک پہنچانے کے لئے معمولی خرچ آتا ہے۔ اگر ڈاک سسٹم میں زیادہ خرابی محسوس کی گئی تو اسے بینکوں کے توسط سے فول پروف بنایا جا سکتا ہے۔ غریب آدمی کو سستے آنے کی شکل میں چاہے جتنا ریلیف دیں۔اس کے برعکس 2 روپے والی چپاتی حکومت کو آٹھ دس روپے میں پڑ رہی ہے اور اس پروجیکٹ پر حکومت کرنسی نوٹوں کے گٹھے خزانے سے نکال نکال کر جس بے دردی سے دہکتے تنوروں میں پھونک رہی ہے۔ اربوں کے اس بے جا اسراف کی مثال نہیں ملتی! میں سستی روٹی کا مخالف نہیں ہوں۔ غریب عوام کو سستی روٹی مہیا کرنے سے زیادہ اچھا کام اور کون سا ہے۔
…………
رسول پاک نے فرمایا ہے۔ علم سیکھو خواہ اس کیلئے چین بھی جانا پڑے۔ اسی طرح اگر عقل سیکھنے کیلئے ہمسایے کے گھر جانا پڑے۔ تو کیا مضائقہ ہے۔ اگر میاں صاحب کو سستی روٹی مہیا کرنے کا شوق ہے تو ہم ان کو صوبے کے 9 کروڑ لوگوں کے لئے سستی روٹی فراہم کرنے کا آسان نسخہ بتاتے ہیں!
میاں صاحب اپنی پہلی فرصت میں پڑوسیوں کے ہاں جائیں۔ سستی روٹی اور خوشحالی کیلئے بھارتی پنجاب کا وزٹ کریں۔ پہلے ان سے یہ دریافت کریں کہ جس ایکڑ زمین میں ہم ابھی تک 20 من سے زیادہ غلہ پیدا نہیں کر سکے۔ وہ لوگ 80 من فی ایکڑ پیداوار کیسے لے رہے ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ کوئی گیدڑ سنگھی ہمارے پاس نہیں ہے۔ (جاری ہے)
ہم نے آپ سے کم زرخیز صوبے کے پانی کا انتظام کیا۔ ڈیموں‘ نہروں‘ راجباہوں‘ ٹیوب ویلوں کا جال بچھا دیا۔ کسانوں کو مفت یا بالکل سستی بجلی‘ کھاد‘ کیڑے مار دوائیں‘ ٹریکٹر دیگر زرعی آلات اور دنیا کے بہترین ترقی دادہ بیج مہیا کئے۔ چنانچہ بھارتی پنجاب آج ایک خوشحال ترین خطہ ہے۔ وہ بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی کفالت میں بھی مدد کر رہا ہے۔ ہمیں ایک فوجی ڈکٹیٹر 2 بڑے ڈیم بنا کے دے گیا۔ گزشتہ 40برس میں ہم تیسرا ڈیم نہیں بنا سکے۔ آج پانی اور بجلی کی کمی کے باعث ملک تباہی کے غار میں جا رہا ہے۔ زراعت اور صنعت دونوں تباہ ہو رہی ہیں۔ لاکھوں مزدور بے روزگار مسلسل لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور اجتماعی خودکشیوں کے جشن منائے جا رہے ہیں۔ ہم ان کو سستی روٹی سے پرچا رہے ہیں۔ ارضی ماہرین دہائی دے رہے ہیں کہ زیر زمین پانی کی سطح میں خطرناک کمی واقع ہو رہی ہے۔ اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے فوری بڑے سٹوریج نہ بنائے گئے تو خوفناک تباہی اور قحط کا سامنا ہے۔
انجینئر شمس الملک‘ جنرل (ر) زاہد علی اکبر اور تمام ملکی اور غیر ملکی ماہرین چیخ چیخ کر خبردار کر رہے ہیں کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اس میں تاخیر قومی خودکشی کے مترادف ہے!
آبی ماہرین نے نئی تجویز یہ دی ہے۔ اگر باقی صوبے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کریں۔ یا نخرے دکھائیں۔ تو پنجاب دریائے سندھ میں اپنے حصے کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نیچی سطح رکھ کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کرے۔ سارا انفراسٹرکچر موقع پر موجود ہے۔ فزیبلٹی رپورٹ سے لیکر ریلوے ٹریک‘ پختہ سڑکوں‘ دفاتر کوارٹرز‘ مشینری عملے کی تنخواہوں وغیرہ پر اب تک 80 ارب خرچ ہو چکے ہیں۔
پنجاب کی حد تک یہ ڈیم ہنگامی بنیادوں پر دو‘ تین سالوں میں تعمیر ہو سکتا۔ دوسرے صوبوں نے جب اتفاق کیا۔ ڈیم کو ریز کر کے فل سائز تک لے جایا جا سکتا۔
حکومت پنجاب نے اس سال کے بجٹ میں بھی کالاباغ ڈیم کے لئے ٹوکن فنڈز مختص کئے ہیں۔ لیکن منافقت کی حد یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ سودے بازیوں کے باعث کالاباغ ڈیم کا نام تک زبان پر لانے سے گریزاں ہیں!
یہ شہنشاہ تنوروں کی تعداد میں اضافہ کر کے ‘ لوگوں کو بھکاری بنا کر اور خزانے کو آگ لگا کر سستی روٹی کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ سبحان اللہ۔