حکومت ناکام ہو گئی۔ کراچی میں فوج کو بلانا آئینی اقدام ہو گا ممتاز بھٹو
کراچی یا سندھ کے حکمران اتحاد میں تین بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی۔ ایم کیو ایم اگرچہ رسمی طور پر گذشتہ ماہ جون سے حکومت سے باہر ہے لیکن گورنر اس کا ایک مرتبہ جا کر واپس آ گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وزراءکے بارے میں بھی روزانہ پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ اب دوبارہ شامل ہوئے کہ تب۔ یہ تینوں بظاہر اتحادی جماعتیں ایک دوسرے پر قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور اپنے اپنے علاقوں میں نو گو ایریاز قائم کرنے کا الزام لگاتی ہیں۔
اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے پولیس اور رینجرز کے ذریعے سرجیکل آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس اور رینجرز پچھلے تین سالوں سے شہر قائد میں امن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں اس لئے کہ بنیادی فیصلے وقتی سیاسی اغراض کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں۔ ان سے حالات مزید بگڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے گرد خون کی چادر لپیٹ لی ہے لہٰذا وزیراعظم کی تدابیر سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اقتدار کی کلید صدر زرداری کے ہاتھوں میں ہے۔ صوبہ سندھ کے حوالے سے اصل فیصلے وہ خود یا ان کے قریبی مشیر کرتے ہیں۔ صدر صاحب نے جب سے تازہ لہر نے سر اٹھایا ہے کراچی آنا تک گوارا نہیں کیا۔ فوج کے بارے میں کہا جا رہا ہے آخری آپشن ہے۔ فوج کا ایک کردار آئینی ہے۔ یعنی وہ حکومت کی دعوت پر آئے۔ فسادات سے مکمل غیر جانبداری سے نمٹے اور اپنا کام کرنے کے بعد واپس چلی جائے۔