یکم ستمبر1947ءکو راقم الحروف صوبہ جموں کے قصبہ ریاسی میں صبح اپنے گھر سے نکل کر بازارکے چوک میں آیا توخوف و ہراس اور سناٹے کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ پاکستان قائم ہوچکا تھا۔ ریاست جموں کشمیر کی اسی فیصد مسلمانوں کی آبادی کے دلوں میں پاکستان سے الحاق کے سہانے خواب مچل رہے تھے لیکن ریاست پر حکمران ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کی بیس فیصد ہندو آبادی کے چہروں پر اور ان کی آنکھوں میں غصہ اورغضب کے شعلے نمایاں تھے۔ اول پاکستان کاقیام ان کے لئے سوہان روح تھا۔ دوئم اس لئے کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی صورت میں ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ شہر کے چوک میں جموں کے ایک نوجوان برکت علی سے ملاقات ہو گئی جو ریاسی میں کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں ملازم تھا۔ ہم دونوں ریاست کے مستقبل پرخوش امیدوں کے ساتھ بات کررہے تھے۔ برکت علی نے بتایا کہ وہ صبح تحصیلدار کے گھر گئے تھے۔ ہندو تحصیلدار کے پاس ایک بیٹری سیٹ ریڈیو تھا۔ تحصیلدار نے برکت علی کو بتایا کہ صبح کی خبروں میں یہ بتایاگیا ہے کہ پونچھ میں عبدالقیرم نامی ایک نوجوان نے بغاوت کردی ہے۔ ہم پونچھ کے جغرافیہ سے واقف تھے اور نہ عبدالقیوم کو جانتے تھے۔ آزاد کشمیر میں جہاد شروع ہو اتو ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کو سری نگر سے بھاگ کر اپنی جنم بھومی جموں شہر میں پناہ لینی پڑی اور صوبہ جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا سومبر رچایا گیا۔ راقم الحروف اس قتل عام میں اپنے والد بزرگوار، بھائی، بیوی، بیٹا اورخاندان کے درجنوں افراد شہید کرواکر پاکستان کی آغوش شفقت و مروت میں پناہ گزین ہوا توجہاد کشمیر جاری تھا۔ بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کی تھی اور اس کو سیاسی حمایت کا کندھا شیخ محمد عبداللہ نے بھدرواہ جیل سے ہی ایک ہندو دوست کو خط کے ذریعہ مہاراجہ ہری سنگھ کو ہندوستان میں شامل ہونے کا پیغام پہنچا کر فراہم کردیاتھا۔ ہندوستان کے حامی شیخ عبداللہ بھی مہاراجہ کی قید میں تھے اورپاکستان کے حامی چودھری غلام عباس بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہاراجہ کی جموںکی جیل میں نظر بند تھے۔ صوبہ جموں کے مسلمانوں کے قتل عام میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی آہیں اور چیخیں چودھری غلام عباس جیل کی چاردیواری میں سنتے رہے اور خود بھی آنسو بہاتے رہے۔ ہندوستان میں کانگرس کی حکومت نے کشمیر کے پاکستان سے فطری الحاق کوروکنے کےلئے سازشوں کا آغاز کردیا تھا۔ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن جنہوں نے تقسیم ہند کے پلان کا اعلان کیا تھا اور جو بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے تھے ،نے26 جون47ءکو سری نگر کا دورہ کیا اوروہاں کے مہاراجہ ہر ی سنگھ کو تھپکی دے کر آئے تھے۔ کانگرس کے صدر اچاریہ کر پلانی نے سری نگر کا دورہ کیا اور شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو حوصلہ دیا ۔ولی خان سری نگر گئے اور کشمیر کے پاکستان سے الحاق کوروکنے کےلئے نیشنل کانفرنس کے کارکنوں کو حوصلہ دے کر آئے ۔ ان سازشوں کا نقطہ عروج ہندوستانیوں کے باپو مہاتھا گاندھی کا یکم اگست 1947ءکو کوہالہ مظفر آباد سڑک کے ذریعہ سری نگر کا دورہ تھا۔ گاندھی تین دن سری نگر میں رہے۔ وہ شیخ عبداللہ کے گھر گئے اورمہاراجہ ہری سنگھ سے ان کے محل میں ملاقات کرکے کشمیر کو ہتھیانے کی سازش کو مکمل کیا تھا۔ ان سازشوں کو ناکام کرنے کےلئے 23 اگست 1947ءکو عبدالقیوم نامی ایک 23 سالہ پرجوش نوجوان نے ڈھیر کوٹ کے قریب جنگل میں نیلہ بٹ کے مقام پر ہزاروں لوگوں کا اجتماع کیا۔ مہاراجہ نے کوہالہ پل پر فوج تعینات کررکھی تھی۔ باغ میں فوج کی بٹالین نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ مسلم کانفرنس کے 64 کارکن قلعہ میں نظر بند تھے۔ ہڈاباڑی میں مسلمانوں کے اجتماع پر گولیاں برسا کر 6مسلمان شہید کردیئے گئے تھے۔ اس جبر اورتشدد کی فضا میں نیلہ بٹ کے جنگل میں عبدالقیوم نامی نوجوان نے ہزاروں پر جوش لوگوں سے قرآن مجید پر یہ حلف لیا کہ مہاراجہ کشمیر نے پاکستان سے الحاق نہ کیا تووہ جہاد کا اعلان کردیں گے۔ مسلم کانفرس کی جنرل کونسل نے اپنے سری نگر میں منعقدہ اجلاس 19جولائی1947ءکی قرارداد میں یہی عہد کیا تھا۔ آزاد کشمیر کے معزز و معتبر عالم دین سید مظفر حسین ندوی جو آزاد کشمیر حکومت کے ناظم اعلی عشرو زکوٰة کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے تھے نے راقم الحروف کوخود بتایا تھا کہ وہ نیلہ بٹ کے اس جلسہ میں موجود تھے اور قرآن مجیدپر ہاتھ رکھ کر جس عہد نامہ کا اعلان کیاگیا تھا وہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔ نیلہ بٹ میں گولی نہیں چلی تھی گولی غالباً 29 اگست کو سردار عبدالقیوم کے گھر کے نزدیک ایک جنگل میں ڈوگرہ فوج کی پٹرول پارٹی اور سردار عبدالقیوم کے درمیان مڈھ بھیر میں چلی تھی۔ یہیں سے جہاد کا آغاز ہوگیا تھا جس میں ہراول دستے کا کردار پونچھ کے بہادر اور سپاہ گری کے تربیت یافتہ لوگوں نے ادا کیا تھا۔