اس سے بڑی قومی بد قسمتی بھلا اور کیا ہوگی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں پچھلے 68 برسوں کے دوران ”چیک اینڈ بیلنس“ کا کوئی کانسپٹ ہی پیدا نہیں ہو سکا۔ آزادی وطن کے اس طویل عرصہ میں روز مرہ رونما ہونے والے انسانی تذلیل کے واقعات اور دیگر گھناﺅنے جرائم کے ریکارڈز کو جس طرح مٹایا گیا دردِ درل رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں کے لئے آج بھی وہ ایک سوالیہ نشانہ ہے؟
سانحہ قصور پر بہت کچھ لکھا جا چکا بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بہت کچھ لکھا جانا ابھی باقی ہے، اس سلسلہ کو رکنا بھی نہیں چاہیے کہ جس جان لیوا مرض کو اب ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ اسکی تشخیص کئی برس قبل ہونا ضروری تھی بہر حال جب تک اصل مجرموں کو خواہ وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قانون کے مطابق سخت سے سخت سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک اس شرمناک واقعہ میں ملوث ملزمان اور پولیس میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کا یہ گھناﺅنا واقعہ پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں واقعات میں والدین کو اس لئے بھی خاموش رہنا پڑا کہ گاﺅں، محلہ یا شہر میں ان کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔ کسی مصلی یا جولاہے کے بچے سے ہونے والی زیادتی پر قانون کے رکھوالے، عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے کونسلر اور تھانوں میں ایف آئی آر کاٹنے والے تھانیدار کتنی جلدی حرکت میں آتے ہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہت ممکن تھا کہ قصور میں ہونے والے اس واقعہ کو بھی دبا دیا جاتا مگر اس بار واقعہ کا تعلق چونکہ حضرت بابا بلھے شاہؒ کی نگری سے ہے اس لئے تصوف، طریقت اور صوفی ازم کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے اس شہر میںرو نما ہونے والے اس واقعہ کو پولیس دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ پورے پاکستان میں جس کے آگے ہم ”اسلامی جمہوریہ“ ہر حال میں لکھتے ہیں ایسے دانستہ گمشدہ واقعات کو روز مرہ کا معمول تصور کرتے ہوئے سالہا سال سے نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں۔
قصور سکینڈل کو بے نقاب کرنے کا تمام تر کریڈیٹ بلا شبہ جاتا ہے ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) کے تیار کردہ ادارتی عملہ اور ان کارکنان نوائے وقت کو جنہوں نے اپنے مرشد کی صحافتی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی نظریاتی سوچ کو زندہ رکھتے ہوئے ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ پولیس کا ہر سپاہی، حوالدار، تھانیدار، ڈی ایس پی اور ایس ایس پی بُرا نہیں پولیس فرض شناس اہلکاروں سے بھری پڑی ہے افسوس اگر ہے تو یہ کہ اس پولیس میں بعض ایسے درندہ صفت اہلکار اور افسران شامل ہو چکے ہیں جنہوں نے انسانی اقدار کی کھلے عام پامالی کو اپنا معمول بنا رکھا ہے۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے میری ایک حادثاتی ملاقات ہو چکی ہے۔ اس وقت وہ ڈی آئی جی تھے جبکہ حاجی محمد حبیب الرحمن اس وقت سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کے لئے تشکیل دیئے قوانین پر کسی کو قطعی شک و شبہ نہیں۔ شکوہ اگر ہے تو ان قوانین پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر جس میں اقربا پروری اور با اثر ہونے کی قوت کو ایک جزو بنا دیا گیا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے پاکستان میں بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے امور کے لئے کوئی وزارت قائم نہیں۔ تا ہم child protection bureau ادارہ ضرور موجود ہے جو بچوں کے امور کے کچھ حصوں پر کام کر رہا ہے مگر مسئلہ یہاں پھر وہی ہے کہ اس ادارے کا بنیادی کام گمشدہ بچوں کی تلاش اور بھکاری بچوں کی پکڑ دھکڑ ہے، بچوں کی حفاظت کے نام پر قائم اس ادارے کی مزید ذمہ داریاں کیا ہیں۔ معلوم نہیں! تا ہم یہ ضرور جانتا ہوں کہ ایسے اداروں کے اہلکاروں کو خوش کئے بغیر آپ فلاحی مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔ اس طرح ”پورنو گرافی“ کا معاملہ ہے اس بارے میں بھی شکوک و شبہات اپنی جگہ قائم ہیں قانون میں اگر جان ہوتی تو قصور کے اس شرمناک واقعہ کے خلاف پولیس بہت پہلے اقدامات کر چکی ہوتی۔
اس بارے میں برطانیہ کے ”کھلے ڈُلے“ معاشرے کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، مگر ان مثالوں کا فائدہ اس لئے بھی نہیں کہ اسلامی اور ملٹی کلچرل معاشروں کی بنیادی اقدار مختلف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کو درسگاہوں میں دنیا کے تیزی سے بدلتے معاشرتی حالات اور بچوں سے ہونے والے زیادتی کے حوالہ سے ایسے لیکچروں کا انتظام کیا جائے کہ ان کے اذہان نیکی، بدی اور اچھائی یا بُرائی کا خود فیصلہ کر سکیں۔
خادم اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اس واقعہ پر فوری ایکشن لیتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو فوری طور پر تحقیقات کا آغا زکرنے کا حکم دیتے ہوئے جلد از جلد انکوائری مکمل کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کو فوری طور پر او ایس ڈی بھی بنا دیا ہے۔ ساتھ میں اس سکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ جہاں تک اس زیادتی سکینڈل میں پولیس افسران کو معطل کرنے کا معاملہ ہے تو دنیا جانتی ہے ہماری پولیس میں معطلی کوئی سزا نہیں بلکہ افسران کو انکی حاضر ڈیوٹی سے روکنے کا ایک عام سا طریقہ ہے۔ جو افسر پہلے یوینفارم میں ہوتا ہے اسے معطل کر کے آفیسران سپیشل ڈیوٹی لگا دیا جاتا ہے۔ وزارت داخلہ کے قانون کے تحت کسی بھی افسر کو 3 ماہ کے لئے معطل کیا جا سکتا ہے۔ جو اپنے محکمہ کے مطابق گاڑی کی سہولت کے ساتھ دیگر سہولتوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ کمی اگر رہتی ہے تو صرف پروٹوکول کی کیونکہ پولیس ریگولیشن کے مطابق اسے ضوابط کی پابندی کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے پولیس افسران کی معطلی محض عوام کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کا ایک بہانہ ہے پولیس کے معطل کئے گئے افسران کی تعداد کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو 3 ماہ بعد دوبارہ انہیں انکے عہدوں پر بحال کر ہی دیا جاتا ہے مگر! جن نیک اور ایماندار افسران کو اصولوں پر چلنے کی سزا دی جاتی ہے انہیں فوراً بحال نہیں کیا جاتا ایسا ہی لندن کے سکول آف اورینٹل سٹیڈیز سے فارغ التحصیل اسلام آباد کا سابق ایس پی نیکو کار جیسے تاہنوز بحال نہیں کیا گیا پولیس کے دوہرے معیار کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔