اس میں کوئی شبہ نہیں گزشتہ اڑسٹھ برسوں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاو¿ کا شکار رہے ہیں۔کبھی لگتا ہے کہ جیسے پل بھر میں تمام مسائل حل ہوجائیں گے تو کبھی لمحوں میں بات جوہری دھمکیوں تک آجاتی ہے اور کبھی پیار کی پینگیں بڑھتی نظر آتی ہیں تو کبھی دونوں ملکوں کے درمیان نفرت اور آگ کے کئی دریا ٹھاٹھیں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔دونوں ممالک برطانوی ہندوستان کی مسلم ہندو آبادی کی بنیاد پر تقسیم سے معرض وجود میں آئے۔مسلم اکثریتی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا اور بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم آباد تھی،اُسے ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔ پاکستان توبہت جلد جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا چلا گیا لیکن اس کے برعکس نام نہاد”سیکولر “ بھارت بصیرت سے محروم ہندو جنونیوں کے ہاتھ میں کھیلنے لگا، قیام پاکستان کے فوری بعد ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کردی تھیں، بھارت میں مسلم کش فسادات اور پاکستان آنے والے مہاجرین کے قافلوں پر انتہاپسند ہندو¿وں کے حملوں میں لاکھوں مسلمان شہید کردیے گئے۔مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگنے کے بعد بھارتی ہندو جنونی اسٹیبلشمنٹ نے مسلمان ریاستیں بھی ہڑپ کرنا شروع کردیں۔ تاج برطانیہ نے تقریبا 680 نوابی ریاستوں کو اختیار دیا تھا کہ وہ جس ملک سے چاہیں اپنا آزادانہ طور پر الحاق کر سکتی ہیں، ان میں سے جوناگڑھ اور حیدر آباد کی ریاستوں نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا ، لیکن ان اعلانات کے فورا بعد ہی بھارت نے یہ الحاق تسلیم کرنے کی بجائے اپنی فوجیں بھیج کر دونوں ریاستوں پر قبضہ کرلیا۔ دوسری جانب کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی، لیکن یہاں قابض ڈوگرا راجہ نے وادی جنت نظیر بھی بھارت کو بیچ دی ، کشمیریوں نے لڑ کر کچھ حصہ تو آزاد کرالیا لیکن باقی مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ اڑسٹھ برسوں سے کشمیریوں کے خلاف نفرت کی جو فصل کاٹی جارہی ہے، اُس کے بیج سات دہائی پہلے ہی بوئے گئے تھے۔بھارت کے ہندو جنونیوں کو آج تکلیف یہی ہے کہ کشمیریوں کی پشت پر گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان کھڑا ہے،اگر پاکستان کشمیریوں کا ساتھ نہ دیتا تو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جو نسل کشی شروع کی گئی تھی، اُس کے نتیجے میں اب تک جموں و کشمیر سے مسلمانوں کا صفایا ہوچکا ہوتا۔ لفظ کشمیر تو اب بھارتیوں کی چڑ بن چکا ہے، جیسے ہی پاکستان کشمیر کا نام لیتا ہے، بھارت کے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے چار جنگیں بھی لڑچکا ہے، پاکستان پر مسلط کی گئی اِن جنگوں میں ہزیمت اٹھانے کے علاوہ بھارت اگر کبھی مذاکرات کی میز پر آتا ہے تو وہاں بھی اُسے ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد بھارت مسئلہ کشمیر کو خود ہی اقوام متحدہ میں لے کر گیا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا، جسے بھارتی وزیراعظم شاستری اپنی جیت سمجھ کر شادی ِمرگ کا شکار ہوکر آنجہانی ہوگئے، پھر بھارت نے کشمیر کے معاملہ پر شملہ معاہدہ کیا اور ایک عرصہ تک شملہ معاہدہ کو اپنی فتح سمجھ کر خوش فہمی میں مبتلا رہا، صرف یہی نہیں بلکہ بھارت نے تو پہلے ”اعلانِ لاہور“پھر ”آگرہ اعلامیہ“ اور پھر ”اوفا ڈیکلیئریشن“ کو بھی اپنی جیت سمجھا تھا، لیکن اِن تمام معاہدوں او ر اعلامیوں میں کسی بھی جگہ کشمیر کو حذف نہیں کیا گیا بلکہ کشمیر ہی اصل اور بڑا حل طلب تنازعہ بن کر سامنے آیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی جنونیوں کی کارستانیوں کا جب بھی پردہ چاک ہونے لگتا ہے تو وہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے مذاکرات کی جانب آجاتے ہیں۔ پاکستان نے اندرون ملک دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ادارہ ”را“ کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت اقوام متحدہ کودینے کا اعلان کیا تو بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات یاد آگئے ، لیکن جیسے ہی نئی دہلی میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مذاکرات کا اعلان ہوا تو بھارت کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اِس کالم نگار نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ اِس بھارتی ڈھونگ کا ”کلائمیکس“ کیا ہوگا؟لہٰذا وہی ہوا جس کا ڈر تو نہیں تھا لیکن اندازہ بہت پہلے سے ہی ہوگیا تھا کہ بھارتی سرکار کی باگ ڈور جب تک ”گجرات کے قصاب“ کے ہاتھ میں ہے، دونوں ملکوں کے مابین قیام ِامن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔مودی سرکار نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی وہ بیل ہی کاٹ دی جس کے سہارے امن کے پھولوں نے منڈھے چڑھنا تھا۔
نئی دہلی میں مذاکرات کا ”دانہ“ پاکستان کو ڈالنے کیلئے گزشتہ چند ہفتوں میں بھارت نے جو بھی کیا یہ کچھ اتنا نیا ، انوکھا اور انہونا بھی نہیں تھا ۔ 9 جولائی کی اشاعت میں اِس کالم نگار نے ”آنے والے دور کی دھندلی سی اِک تصویر“ پہلے ہی دکھادی تھی۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے سیلفی بنانے کے شوق پر تنقید کرنے والی بھارتی اداکارہ شروتی سیٹھ نے جنونی ہندووں“ کے انتہائی نفرت انگیز ردعمل کے بعد اپنے آخری ٹویٹ میں لکھا تھاکہ ”میں نے اپنے ٹویٹ میں جو کچھ کہا تھا ، اُس پر قائم ہوں اور اس کا اعادہ بھی کرتی ہوں کہ سیلفی بنانے سے تبدیلی نہیں آتی ہے، تبدیلی اصلاحات سے آتی ہے!“شروتی کے اس جملے کے تناظر میں اِس کالم نگار نے لکھا تھا کہ بنگلہ دیش بنوانے کا برملا اعتراف کرنے والے بھارتی وزیراعظم پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بڑھکا کر وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کیلئے جو مرے جارہے ہیں توبھارت کی نظر میں اس ملاقات کا ایجنڈا بھی ایک ”سیلفی“ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔جب دنیا کی سب سے بڑی ”جمہوریت“ کا سربراہ سیلفی سے زیادہ کا وژن نہ رکھتا ہوتو پھر ایسے میں میاں نواز شریف کو سوچنا ہوگا کہ محض ملاقاتوں سے کیا حاصل؟ وزیراعظم نواز شریف کو کھل کر بھارتی وزیراعظم کو بتانا چاہیے کہ” دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تبدیلی محض سیلفی سے نہیں آئے گی، بلکہ یہ تبدیلی اُس وقت آئے گی، جب بھارت دل سے پاکستان کا وجود تسلیم کرلے گا“۔ کالم نگار نے خطے میں حقیقی امن کیلئے نریندر مودی کو ایک تصویر سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔
قارئین کرام!! ”وقت نے دیکھ لیا کہ گجرات کے قصاب“ کی بطور بھارت کے پردھان منتری کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کسی کام آئی نہ ہی اوفا میں کیے جانے والے مصافحہ نے کوئی رنگ دکھایااور بھارتی ہم منصب کی ماتا کو بھجوائی جانے والی ساڑھیوں نے کوئی کام دکھایا نہ ہی نریندرا مودی کو تحفہ میں بھیجے گئے آم دو نوں ممالک کے تعلقات میں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام ثابت ہوئے بلکہ پاکستان کی جانب سے مسلسل دکھائی جانے والی لچک نے انڈیا کی قیادت کی گردن میں سریا مزید سخت کردیا۔پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو بھی اب جان لینا چاہیے کہ بار بار مذاکرات کے بھارتی جال میں پھنسنے اور مزید کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کی بجائے ”را“ کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کرنا ہی بہتر ہوگا ۔ انڈیا عالمی کٹہرے میں مجرم بن کرپیش ہوگا تو بھارتی عوام کو بھی پتہ چلے گا کہ ”سیلفی“ بنانے کاشوقین مودی کتنا ”سیلفش“ ہے۔
”سیلفی“ بنانے کا شوقین مودی کتنا ”سیلفش“ہے!
Aug 24, 2015