بھارت ایک بار پھر مذاکرات کی میز سے بھاگ گیا

Aug 24, 2015

سلیم بخاری

توقع کے عین مطابق ایک بہت معمولی بات کو جواز بنا کر بھارت ایک دفعہ پھر مذاکرات کی میز سے دُم دبا کر بھاگ گیا ہے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان 23 اگست کو نئی دہلی میں ملاقات وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے باہمی مشاورت سے طے کی تھی۔ جب وہ روس کے شہر اوفا میں ملے تھے جہاں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی غرض سے موجود تھے۔ اس سے قبل سارک کے سربراہی اجلاس میں جو نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں منعقد ہوا تھا یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کرکے معطل شدہ روابط کو پھر سے جاری و ساری کیا جائے تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے مگر کچھ ہی دیر بعد ایک بے معنی ایشو کو لیکر ان مذاکرات کو بھی بھارت نے ہی منسوخ کیا تھا۔ اس سے ذرا پیچھے جائیں تو آگرہ میں ڈائیلاگ کے ذریعے تقریباً سمجھوتہ ہو گیا تھا مگر بھارت کی ہندو انتہاپسند قیادت نے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو مجبور کیا کہ وہ اس پر دستخط نہ کریں اور انہوں نے ایسا ہی کیا آخری لمحات میں وہ چھپتے پھر رہے تھے اور اسی دوران جنرل مشرف کی قیادت میں وہاں موجود پاکستانی وفد ناکام واپس لوٹ آیا۔ بھارت کی طرف سے مذاکرات کی منسوخی سے دو باتیں سامنے آئی ہیں اولاً یہ کہ نیو دہلی یہ جان چکا ہے کہ پاکستان سے بھارت کا جب بھی آمنا سامنا ہوگا‘ کشمیر کی بات ہر صورت ہوگی۔ اس کی ابتدا گزشتہ برس نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کی تھی جب انہوں نے عالمی ادارے کو کشمیر کے بارے میں اس کا فرض یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ 65 برس قبل سکیورٹی کونسل نے دو قراردادیں منظور کی تھیں اور یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت دیا جائے گا جس کے ذریعے وہ یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ دوئم یہ کہ ہندو قیادت کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ پاکستان کے پاس بھارتی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“ کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے حوالے سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کو یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت طاقت کے بل بوتے پر وادی کشمیر پر قابض ہے اور اس کے سات لاکھ سے زیادہ فوجی وہاں جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ کشمیر نوجوانوں کی طرف سے جاری ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں صورتحال بھارت کے قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ قتل و غارت گری اور خواتین کی عصمت دری کی جو مثالیں وہاں قائم ہو رہی ہیں‘ ان کی پوری عالمی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی مگر عالمی ضمیر معلوم نہیں کس بے غیرتی کی نیند سو رہا ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما دورہ بھارت پر تشریف لاتے ہیں مگر دہلی سے 250 کلومیٹر دور بھارتی فوجی کیا قیامت ڈھا رہے ہیں‘ وہ ان کو نظر نہیں آتا۔ مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘ وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔ ان قائدین کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں گزر چکا ہے۔ وہاں ہونے والے جعلی انتخابات میں جو کٹھ پتلی افراد منتخب ہوتے ہیں‘ ان کو لیکر اب دنیائے عالم کو مسلسل دھوکے میں رکھنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں۔ حریت کانفرنس کے رہنماﺅں سے پاکستانی وفد کی ملاقات کوئی انہونی بات نہیں۔ گزشتہ 20 سالوں سے جب بھی پاکستانی وزیراعظم یا صدر بھارت کا دورہ کرتا ہے‘ یہ ملاقات ہر مرتبہ پاکستانی ہائی کمشن میں ہوتی ہے۔ راقم الحروف دو مرتبہ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کے ساتھ بھارت کا دورہ کر چکا ہے اور ہر مرتبہ تمام کشمیری قیادت کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ اب نہ جانے کس بنا پر بھارت کو اس مجوزہ ملاقات پر اعتراض ہے۔ اس سے قبل بھی جب پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری رہنماﺅں کو عید ملن پارٹی کے موقع پر مدعو کیا تھا تو بھارتی حکام کے پیٹ میں ایسے ہی مروڑ اٹھے تھے۔ دراصل اس مرتبہ نریندر مودی سرکار کو یہ علم ہو گیا تھا کہ مشیر خارجہ جس تیاری کے ساتھ بھارت جا رہے ہیں‘ اس میں ان کیلئے ہزیمت کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری بڑی وجہ جس نے بھارت کو پریشان کر رکھا تھا وہ یہ کہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت بات چیت کے ایجنڈے پر یکسو ہے اور ماضی کی طرح پاکستانی وفد بھارت کی خوشنودی کیلئے گڈی گڈی رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ یہ تو طے ہو چکا تھا کہ ”را“ کے ملوث ہونے کے ثبوت نہ صرف بھارت کے سامنے رکھے جائیں گے بلکہ سفارتکاری کے ذریعے انہی دنیا بھر میں اجاگر بھی کیا جائے تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ بھارت تو خطے میں امن قائم کرنے کیلئے چودھری بننے کا خواہشمند ہے۔ وہ درحقیقت کتنے گھناﺅنے عزائم رکھتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اگر بھارت مولانا ذکی الرحمن لکھوی کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے جن پر ابھی تک ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوا تو پاکستان بھی کرنل پروہت اور اسانندسوامی جیسے افراد کی سپردگی کیلئے بھارت پر سفارتی دباﺅ اور مطالبہ کرے کہ ان مجرموں کو اسلام آباد کے سپرد کیا جائے۔ لیجئے جیسا کہ توقع تھی بی جے پی کی نمائندہ اور مودی کی چہیتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے بھی منہ کھول دیا ہے اور وہ بھی اسی میوزیکل کورس کا حصہ بن گئی ہیں۔ یعنی بھارتی میڈیا جو راگ”را“ کے اشارے پر گا رہا تھا کہ مذاکرات منسوخ ہو گئے ہیں‘ محترمہ نے اسی کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ فرماتی ہیں اوفا میں جامع مذاکرات کی بات نہیں ہوئی تھی۔ پھر وہ اسی پریس کانفرنس میں یوں گویا ہوتی ہیں کہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ مذاکرات میں کسی تیسری پارٹی کی شرکت قبول نہیں۔ وہ تو جوش فراوانی میں یہ تک کہہ گئی کہ مذاکرات سے پہلے حریت رہنماﺅں سے ملنے کا مطلب ہے پاکستان انہیں سٹیک ہولڈر مانتا ہے۔ سشما جی سے گزار ش کہ اوفا میں یہ بات کب ہوئی تھی کہ حریت رہنماﺅں سے ملاقات نہیں ہوگی۔ رہا دہشت گردی کا سوال تو محترمہ اب تو پوری دنیا جان چکی کہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی بھارت کر رہا ہے۔ تیسری پارٹی کشمیری ہیں ‘ جتنی جلدی آپ یہ مان لیں آپ ہی کا فائدہ ہے۔ رہا حریت رہنماﺅں کا معاملہ تو وہ سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں۔ راقم الحروف تو اس بات پر بہت نازاں ہے کہ نواز حکومت نے ایک ٹھوس موقف اختیار کیا اور عسکری قیادت کو ساتھ لیکر عوامی امنگوں کے مطابق ایک ٹھوس ایجنڈا تشکیل دیا جس نے بھارت کو مذاکرات سے فرار کرنے پر مجبور کر دیا۔ سرتاج عزیز نے ایک اعلیٰ بات یہ کہی کہ اگر کشمیر پر مسئلہ نہیں تو لاکھوں بھارتی فوجی وہاں کیا کر رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی کا ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں نوجوان پاکستان کا جھنڈا ہر گلی محلے‘ ہر چھت پر کیوں لہرا رہے ہیں۔ بھارت مذاکرات کی میز سے بھاگ کر وقتی طورپر تو ہزیمت و شرمندگی سے بچ گیا ہے‘ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ وہ شواہد اور ثبوت سرتاج عزیز نے اپنے ہم منصب اجیت ڈوال کو دینے تھے وہی سب لیکر اب وہ وزیراعظم کے ساتھ اگلے ماہ نیویارک جائیں گے اور کوشش کریں گے ان شواہد کو اقوام متحدہ کے ریکارڈ کا حصہ بنوایا جائے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت جو پاکستان کے حکمرانوں کے رویئے سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھی اب خوش ہو جائے گی۔

مزیدخبریں