سرینگرسے 60کلومیٹرکے فاصلے پر ترال کا باسی برہان وانی انڈین فورسزکے ہاتھوں شہید ہونے کے بعد ایک بار پھرپوری دنیا میں کشمیرکے مسئلے کو اجاگرکر گیا۔ اب وہاں پر چھوٹے چھوٹے بچوں سے اگر پوچھیں کہ برہان وانی کون تھا؟ تووہ کہیں گے کہ ہمارا لیڈر ایک شہید آئیڈیل۔کچھ سال پہلے برہان جب سکول میں پڑھتا تھا تواپنے بڑے بھائی خالد وانی کیساتھ اسکی نئی موٹر سائیکل پر کچھ سامان لینے گئے انکے ساتھ برہان کا ایک دوست بھی تھا۔ راستے میں انڈین پولیس کے کچھ سپاہیوں نے روکا اور سگریٹ مانگے مقبوضہ کشمیر میں اکثرمسلمان نوجوانوں سے تضحیک آمیز سلوک کیا جاتا ہے ۔ پولیس نے برہان اسکے بھائی اور دوست کی تضحیک کی۔ برہان کے بھائی خالد کو مارا کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس اثنا میں برہان وہاں سے یہ کہہ کر بھاگا کہ میں واپس آ کر اس کا بدلہ لوں گا اور پھرکچھ ہی مہینوں بعد پندرہ سال کی عمر میں گھر سے بھاگ کر حزب المجاہدین کا حصہ بن گیا۔ جواں سال برہان بے خوف اور نڈر تھا سوشل میڈیا پر ویڈیو میں کشمیری نوجوانوں کو ترغیب دیتا کہ وہ انڈین فورسز اور پولیس سے ہوشیار رہیں اور انکے بارے میں مجاہدین کو اطلاع دیں ۔10لاکھ روپے اسکے سرکی قیمت تھی اس کے باوجود وہ ان چند مجاہدوں میں سے تھا جس نے میڈیا پر اپنا چہرہ دکھایا اس نے کبھی پردے کے پیچھے چھپ کر وار نہیں کیا بلکہ اپنے ایکشن کی ذمہ داری لی۔ کتنے سو نوجوانوں کو مجاہدین میں شامل کیا اور کشمیرکے حق کی جنگ کو ایک چہرہ دیا۔ ایک ہیرو اور آئیڈیل کی شکل لے لی۔ کشمیرکی آزادی کی جنگ کو برہان کا تروتازہ چہرہ مل گیا۔ برہان وانی کے بھائی خالد کو کچھ سال پہلے انڈین فورسز نے شہید کر دیا اور آخر کار آزادی کے اس پروانے کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ لیکن شاید اتنے سالوں کی جدوجہد نے انڈین فورسز کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جوکہ اس نوجوان کی شہادت نے پہنچایا ہے۔ سب سے پہلے انڈیا کا یہ دعویٰ کہ پاکستان اپنے مجاہد کشمیر بھیجتا ہے غلط ثابت ہوا اور پوری دنیا میں یہ بات اجاگرہوگئی کہ کشمیری اپنا حق رائے دہی چاہتے ہیں اور مقبوضہ کشمیرکے اندر سے بہت بڑی تعداد میں نوجوان اب انڈیا کے غاصبانہ قبضے کو برداشت نہیں کرینگے۔ ترال میں جب برہان وانی کو پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تواسکے جنازے میں کم ازکم پچاس ہزار لوگ شامل ہوئے۔ انڈین فورسز جو گولیاں مسلمان کشمیریوں پر برساتی ہیں ان سے انکی آنکھوں کی بینائی ہمیشہ کیلئے چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹرزکی ٹیم جوکہ نئی دہلی سے آکر مریضوں کے آپریشن کرتی ہے انکے مطابق چھ دنوں میں 170آپریشن انہوں نے کئے۔ زیادہ تر مریض ایسے ہیں جن کے مین Organsاب کبھی کام نہیں کر سکیں گے ان مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے یارومددگار سمجھتے ہیں اور مریض کا آپریشن کرتے ہوئے ہمارا دم گھٹتا ہے۔ اکثر باہر آ کر اپنا دل ہلکا کرتے ہیں اور پھراندر جاکر دوبارہ مریض کو دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ ایسے مریض جوکہ پچھلے پانچ سال پہلے زخمی ہوئے تھے وہ بھی ابھی تک علاج کیلئے آتے ہیں جگہ جگہ اخباروں میں چھپنے والی تصویریں جن میں چہرے سوراخ زدہ ہیں پوری دنیا اور خاص طور پر انڈیا کے حکمرانوں کی نیندیں اڑانے کیلئے کافی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت محبوبہ مفتی اور انکے وزراء کو خاص طور پر سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور بڑھتی ہوئی تشددکی لہرکی وجہ سے یہ لوگ اپنے گھروں میں محبوس ہوکر رہ گئے ہیں حکومتی کام بھی رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں ایک ہی نغمہ گونجتا ہے۔
’’ہم نے زخم محبت کو زندہ کیا زخم دل جیت کر‘‘