سول ہسپتال کو ئٹہ میں ہونیوالے بم دھماکے کی ذمہ داری اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے مگر اس طرح کے کئی واقعات کی ذمہ داری پہلے بھی ٹی ٹی پی قبول کر چکی ہے جن کا بعد میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا لہٰذا عوام کے اطمینان کیلئے اور بالخصوص دو سو کے قریب غم سے نڈھال متاثرہ خاندانوں کی دلجوئی کیلئے حکومت کو اس بار نہ صرف سہولت کاروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اہتمام کرنا ہوگا بلکہ برائی کو جڑسے اکھاڑنے کی خاطر منصوبہ سازوں اور فنانسروں کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنا نمایاں کر دار ادا کرنا ہوگا اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک راست اقدام کی بجائے مصلحت آمیزی کے نام پر چشم پوشی سے کام لیا جائیگا۔ اب جبکہ ملکی اور بین الاقوامی شخصیات نے پرزور الفاظ میں واقعے کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ بعض نے تعاون کی پیشکش بھی کر دی ہے تو اس صورتحال میں حکومت کا فرض بنتا ہے کہ دہشتگردوں کی عبرت ناک سزا یابی کو یقینی بنانے کیلئے کوئی کسر باقی نہ چھوڑے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی ملکی سرزمین کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں انہوں نے زخمیوں کی عیادت کیلئے ہسپتال کا دورہ کیا اور دھماکے کے بعد پہلے کومبنگ آپریشن کا حکم جاری کر دیا ہے ۔آئی ایس پی آر کیمطابق دھماکہ دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے فوج کی کامیابیوں کے گراف کو نیچے لانے کی کوشش ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے بھی زخمیوں کی عیادت کی اور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ہدائت کی کہ ذمہ داران کو ہر صورت کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی کی مون نے بھی دہشتگردی کے اس واقعے کی شدید مذمت کی اورپاکستان پر زور دیا کہ عوام کے تحفظ کیلئے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ امریکی ڈائریکٹر آفس آف پریس ریلیشنز الزبتھ ٹروڈیو اور پاکستان میں امریکی سفیرڈیوڈ ہیلے نے کہا ہے کہ امریکہ دہشتگردی کے اس واقعہ کی سخت مذمت کرتا ہے اور قاتلوں کی قرار واقعی سزا کیلئے تفتیشی ذمہ داریوں میں معاونت کیلئے حکومت پاکستان کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ روسی صدر پیوٹن نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا شرکت دار بننے کی پیشکش کی ہے یہ سب کچھ ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی دہشتگردوں کے فنانسرز اور سرپرستوں کو کسی عالمی فورم پربے نقاب کرنے اور پراسیکیوٹ کرنے کی نوبت آتی ہے یانہیں خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ بلوچستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء ملوث ہے۔انہوں نے اس پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ نجی نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ انکے پاس کوئٹہ بم دھماکہ میں بھارتی ایجنسی راء کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی ،پہلے ہی بھارتی نیول افسر کلبھوشن یادیوکو بلوچستان سے گرفتار کیا جا چکا ہے اور اب اسکے نیٹ ورک کی گرفتاری کی خبریں بھی منظر عام پر ہیں۔اس منظرنامے میں نہ صرف صوبائی حکومت کی بلکہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام ضروری ثبوت سامنے لا کر بھارت کا چہرہ بے نقاب کرنے اور اسے بین الاقوامی فورم پر پراسیکیوٹ کرنے کی راہیں ہموار کرنے میں تساہل سے کام نہ لے۔ اگر ہم بھارت کو دیکھیں تو وہ مسئلہ کشمیر کو بھی دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا حالانکہ کشمیر یوں کے حق میں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل قرار دادیں منظور کرچکی ہے۔ وہاں تو رائے شماری میں خود بھارت رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ورنہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا۔ مگر ہم نے یہ ساری کہانی کب اور کہاں سنانی ہے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے تو یوم آزادی کے موقع پر آزادی کے تقدس کا لحاظ کئے بغیر پاکستان کیخلاف دہشتگردوں کا سپورٹر ہونے کا الزام عائد کر دیا ہے۔معلوم نہیں ہم کس وقت کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور بھارت کیخلاف کراچی اور بلوچستان میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہونے کے باوجود کب زبان کھولیں گے ۔ اگر یہی رویہ رہتا ہے تو اب بھی وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ اگر ہم کچھ مثبت نتیجہ چاہتے ہیں تو چیزوں کو مثبت مگر مختلف انداز سے لینا ہوگا۔ بلوچستان کے حوالے سے زمینی حقائق اور تاریخی پس منظر سمیت اندرونی مسائل سے انکار نہیںمگر یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے بھارت کے اپنے بے تحاشہ مسائل ہیں اسے اپنے گھر کی خبر لینے کی بجائے پڑوسی ممالک کے داخلی معاملات گھنونی سازش سے فنڈنگ اور تربیت کے ذریعے خراب کر نے کی کوشش کا حق نہیں یہ حرکت جہاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے وہاں خطہ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی عاقبت نا اندیشی کے مترادف ہے۔بھارتی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا کہ کبھی ڈھاکہ جا کر مکتی باہنی کے کردار کا کریڈٹ لینے کا برملا اعتراف کرنے میں فخر محسوس کریں اور کبھی یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کی سا لمیت کیخلاف بے بنیاد الزام تراشی کرنے میں بڑائی محسوس کریں۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ بھارتی سازشوں، الزام تراشیوں اور دہشت گردی کے واقعات کی پشت پناہی کا منہ توڑ جواب دے۔