ایک وقت تھا کہ سلطنت برطانیہ اس قدر وسیع و عریض تھی کہ وہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ پرتگال اور فرانس دنیا پر چھائے ہوئے تھے تو جنوب مشرقی ایشیاء پر جاپان کا تسلط تھا۔ ادھر جرمنی نے دنیا پر راج کرنے کا دعویٰ کیا ہوا تھا۔ ان تمام تر حالات میں 1945ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑی جس میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرایا گیا۔ نتیجتاً‘ بے انتہا تباہی ہوئی۔ ایٹم بم کا موجد آئینیسٹن‘ اپنی اس ایجاد پر سخت پریشان ہوا۔ چنانچہ البرٹ فولسنگ نے آئینیسٹن‘ کی زندگی کے واقعات پر مشتمل ایک کتاب میں لکھا ہے کہ آئینسٹن نے کہا کہ ’’یہ ہتھیار انگریزوں اور امیریکیوں کو بنی نو انسان کی حفاظت اور آزادی کیلئے دیا گیا تھا۔ لیکن امن اور آزادی کہیں نظر نہیں آئی۔ امریکیوں اور انگریزوں نے جنگ تو جیت لی لیکن افسوس کہ دنیا میں امن قائم نہ ہو سکا۔‘‘
عالمی اقتصادیات: جنگ عظیم دوم کے ساتھ بہرحال ایک نظام کا خاتمہ ہوا۔ امریکہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا۔ جرمنی تقسیم ہوا۔ جاپان اور جرمنی امریکہ کے زیر سایہ آئے۔ مشرقی جرمنی اور یورپ کے کچھ حصے روس کے زیر سایہ چلے گئے۔ سلطنت برطانیہ کا عروج ختم ہوا۔ فرانس اور پرتگال نے بھی اپنی حیثیت کھوئی۔ کوریا دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ فرانس اور برطانیہ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف راغب ہوئے اور آجکل ایٹمی کلب کے ممبر ہیں۔ اس کلب میں اس سال پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہو گئے ہیں! جنگ عظیم کے بعد مارشل پلان اور برٹن وڈ سسٹم (Brettenwood System) کا ایک نیا سیاسی‘ جغرافیائی‘ معاشرتی اور مالیاتی نظام سامنے آیا۔ اس نئے مالیاتی اور معاشرتی نظام میں عالمی بنک اور آئی ایم ایف وغیرہ کا دور چلا۔ ترقی یافتہ ممالک اس نظام سے زیادہ مستفیض ہوئے۔ چنانچہ 1998ء میں امریکہ نے 70 بلین ڈالر کا فاضل بجٹ پیش کیا جو معاشی برتری کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ادھر یورپ نے بھی امریکی معیشت کا مقابلہ کرنے کیلئے آپس میں اتحاد کر لیا ۔ اپنی مختلف کرنسیوں کو ایک کرنسی ’’یورو‘‘ میں تبدیل کر دیا ۔ یورپ کو اب یورپ نہیں‘ یورپین یونین یعنی EU کہتے ہیں۔
روس‘ جو دنیا کی ایک سب سے بڑی سماجی اور اقتصادی طاقت کہلاتا تھا‘ آج اپنی اقتصادی بقاء کیلئے مغرب کی طرف نظر لگائے ہوئے ہے۔ برازیل‘ سماجی اور اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ جنوب مشرقی ایشیاء میں بھی کرنسی کی شرح کے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کی وجہ سے معیشت زوال پذیر ہے۔ وہاں کرنسی کے تاجر راتوں رات مالا مال ہو گئے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ان موجودہ منفی حالات کے باوجود عالمی ادارے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ دنیا معاشی ترقی کر رہی ہے۔ لیکن نتائج بہرحال اسکے بالکل برعکس ہیں۔ عالمی‘ مالی اور تجارتی اداروں نے ترقی یافتہ ممالک کو ہی تحفظات مہیا کئے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ مزید ترقی پذیر ہوئے ہیں۔ رائلٹی‘ ٹیکنیکل فیس اور ایسے دیگر فنی اخراجات کم ترقی یافتہ ممالک پر اضافی بوجھ بنے ہیں۔ ادھر ترقی یافتہ ممالک بھی ازخود بحران سے محفوظ نہیں رہے۔ رابرٹ میرٹن‘ مائیرن شولے اور جان میری ویدر جیسے نوبل پرائز یافتہ افراد جو امریکہ کے سب سے بڑے 200 بلین ڈالر سے زیادہ فنڈ کے بانی ہیں۔ عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ جاپان میں بھی مالی ادارے متزلزل ہوئے ہیں۔ بنک آف ٹوکیو جیسے انٹرنیشنل بنک کو ایک مقامی بنک ’مٹسوبشی‘ بنک کے ساتھ مدغم ہونا پڑا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے بروکریج ہاؤس‘ میرل لنچ کو 6 سال کے بعد پہلی بار نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً اسے افرادی قوت کم کرنا پڑی۔ صورتحال یہ بھی ہے کہ عالمی معیشت کو منجملہ بے روزگاری‘ افراد زر اور قلت سرمایہ کاری جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ایسی صورت میں برٹن وڈ نظام کی کامیابی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘: ادھر امریکہ کے صدر ولیم جے کلنٹن نے برٹن وڈ مالیاتی نظام کی تائید کی ہے اور اس نئے ورلڈ آرڈر کو سراہا ہے۔ چنانچہ عالمی بنک کے گزشتہ سالانہ اجلاس میں کلنٹن نے کہا کہ ’’برٹن وڈ سسٹم نے خوشحالی کے مواقع پیدا کئے ہیں اور پوری دنیا میں معاشی اور سیاسی آزادی نظر آتی ہے۔ 1945ء سے عالمی تجارت 15 گنا بڑھ گئی ہے۔ 1970ء سے غریب ممالک میں بچوں کی شرح اموات 40 فیصد سے کم ہو گئی ہے۔ کوریا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں فی کس آمدنی 60 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ غرض یہ کہ عالمی معیشت نے اربوں لوگوں کی زندگیاں سنوار دی ہیں۔‘‘ دوسری طرف جارج شلرز‘ ولیم سائمسن اور والڈ رٹسن جیسے مفکرین کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف جیسے اداروں نے عالمی معاشی توازن کو دھچکا لگایا ہے۔ ’’اسے بند کر دیا جائے‘‘ حال ہی میں آئی ایم ایف کے مینجنگ ڈائریکٹر مشال کیم ڈی سو نے اس قسم کی تنقید اور بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا میں مالی تلاطم وغیرہ پر نکتہ چینی پر جب احتجاجاً استعفیٰ دیا۔ تو مانا اور کہا کہ آئی ایم ایف کی تشکیل نو کی جائے اور دنیا اور بالعموم ترقی یافتہ ممالک کی خاطر یہ ’’مالی سسٹم بہتر کیا جائے‘‘۔ تنقید یہ بھی ہے کہ ڈیویلیوشن جیسے عوامل جو آئی ایم ایف کا ایک پسندیدہ عمل رہا ہے نہ مالی طور پر مناسب ہے نہ سیاسی طور پر اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس عمل سے اکثر و بیشتر ممالک کا صنعتی‘ مالی اور اقتصادی بلکہ سیاسی زوال ہوا ہے۔ ان ممالک میں لاطینی امریکہ‘ میکسیکو جنوبی ایشیا‘ پاکستان وغیرہ زبردست لپیٹ میں آئے ہیں۔ جہاں تک ڈبلیو ٹی او کا تعلق ہے۔ اسکے رول پر زبان زدعام ہے۔ اینڈی راول جیسے محققین کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ صرف دنیا میں 1\110 فیصد بڑی کارپوریشنوں اور اہم شخصیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ عملاً پچھلی دہائی میں جہاں دنیا کے بیس امیر ترین بڑے ممالک کی دولت میں 70% سے 85% کا اضافہ ہوا ہے وہاں دنیا کے بیس غریب ترین چھوٹے ممالک کی دولت میں دو فیصد کمی ہوئی ہے۔ پروفیسر ’سین‘ جنہیں امسال غربت ختم کرنے کے مضامین پر نوبل پرائز ملا ہے‘ کہتے ہیں کہ جب تک بڑے ممالک کی گلوبلائزیشن پالیسی انفرادی طور پر مختلف ممالک کی سیاسی ترجیحات سے مربوط نہیں ہوتی‘ یہ پالیسی دنیا میں بکھیڑے کی فضا کو ارتقا دیگی نہ کہ باہمی روابط کو! اگر یہ صورت حال رہی تو دنیا پھر بیٹھ جائیگی! عالمی بنک کے صدر جیمز ڈی وولفنسن نے بھی گزشتہ اجلاس میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ’’ان پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کو مایوس ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مثلاً ’منڈاناؤ کے سکول سے ایک خاتون نے اپنے بچے کو آسیب کے ڈر سے نکال لیا۔ کوریا میں ایک متوسط کاروباری قرضہ فراہم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ جکارتہ میں ایک مقروض باپ برسوں سود کی ادائیگی کرتا رہا۔ بنکاک میں بچہ گلیوں میں کام کرتا ہوا بڑا ہوا۔ انڈونیشیا میں 17 ملین لوگ غربت کا شکار ہو گئے۔ روس میں بھی 40 فیصدآبادی غربت کا شکار ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں 1.3 بلین لوگ ایسے ہی جن کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ 3 بلین لوگ 2 ڈالر روزانہ سے کم کماتے ہیں۔ 1.3 بلین لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ 3 بلین لوگ ایسے ہیں جن کے پاس صفائی ستھرائی کا انتظام نہیں۔ 2 بلین لوگ بے سہارا ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ لے لیں وہاں غربت کی جھلک نمایاں ہے۔‘‘ انہوں نے امسال ڈبلیو ٹی او کی سالانہ تقریب میں بھی زور دیا ہے کہ ’’یہ ادارے جب تک ترقی پذیر ممالک کیلئے کچھ نہیں کرتے اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک خود بھی مستفیض نہیں ہوں گے۔‘‘
لہٰذا حالات کو بہتر بنانے کیلئے پرانے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس میں سماجی خوبیاں ہونے کے باوجود عوام خوشحال نہیں۔ البتہ حکمران امیر ضرور ہیں یا پھر ہمیں ایسا نظام نافذ کرنا چاہئے جس میں جغرافیائی اور تجارتی تحفظ موجود ہو۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا علاقائیت کا شکار ہو رہی ہے۔ یورپ میں ECC فروغ پا رہی ہے تو امریکہ NAFTA میں شامل ہو گیا ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک سے درآمدات میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ مینو فیکچررز کی راہیں مسدود کی جا رہی ہیں۔ آزاد معیشت کا نعرہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ آزاد معیشت امریکہ سمیت اب کہیں بھی نہیں ہے! یہ نیشنلزم کا زمانہ ہے۔ ملکی اور علاقائی تحفظات کا زمانہ ہے۔ ایک طرف امیر سے امیر تر اور دوسری طرف غریب سے غریب تر ہونے کا زمانہ ہے!
عالمی اداروں نے انسانی حقوق مثلاً خواتین، چائلڈ لیبر، تعلیم، صحت اور پینے کے پانی جیسے موضوعات پر تو زور دیا ہے لیکن اقتصادی ترقی کے بنیادی تقاضوں پر کوئی غور نہیں کیا۔ تنقید یہ بھی ہے کہ ان اداروں نے غریبوں کو بقول ’’مچھلی تو مہیا کرنے کا ذمہ لیا لیکن ان کو خود مچھلی پکڑنے کی ترغیب نہیں دی‘‘۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ اسکے علاوہ انکے پاس اچھی صنعت اور اچھی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے اور جب تک ان عوامل میں ربط قائم نہیں ہوتا کسی قسم کی ترقی ممکن نہیں۔ دنیا کا پھر بھانڈہ پھوٹے گا اور ایک اور دنیاوی ہیجان پیدا ہو گا۔ کوئی عالمی جنگ ہو گی جس کی تباہی سے بچنا چاہیے۔ (جاری)
بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی و سماجی امتزاج!
Aug 24, 2016