”جان چھڑانا ضروری ہے“

2006ءکے مشرف دور سے نجی محافل میں میں اکثر کہاکرتا تھا کہ نواز شریف جب بھی پاکستان واپس آئیں گے(مشروط جلاوطنی کے بعد)اور جوں ہی ایوان اقتدار پر براجمان ہوں گے‘ وہ سب سے پہلے کام کا آغاز ملک وقوم اورپاک فوج سے انتقام سے کریں گے۔ رہ گیا کرپشن کامعاملہ‘ تو اسکی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے جل بن مچھلی نہیں رہ سکتی اسی طرح تمام کرپٹ افرادکا یہی حال ہے۔ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ چنانچہ 14اگست والے دن جب پوری قوم آزادی کی خوشیاں منارہی تھی‘ مزار اقبال پرفاتحہ خوانی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف فرمانے لگے کہ ”ووٹ کا احترام نہ کرنے سے ملک ٹوٹا‘ ڈر ہے نیا حادثہ نہ ہوجائے“۔ نواز شریف اورشہباز شریف ووٹ اورووٹرز کا کتنا احترام کرتے ہیں اس کا بیشتر ناقدین نے بھرپور جواب دیدیا لہذا اس پر کچھ کہنا محض تضیع اوقات ہوگا‘ مگر خطرناک بات ملک توڑنے کی دھمکی دینا ہے۔ یہی نہیں ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی فرماتی ہیں کہ ”میں حسینہ واجد بن کر بدلہ لوں گی“۔ حسینہ واجد اورمریم نواز کے سیاسی معاملات میں کوئی قدرمشترک بھی نہیں۔ کیونکہ حسینہ واجد کے تمام خاندان کا قتل عام ہواتھاچونکہ اس سانحہ کے وقت وہ بنگلہ دیش سے باہر تھیں اس لئے ان کا انتقام لینا توقابل فہم ہوتا۔ مگر بھی اقتدار میں آکر انہوں نے نہ تو اپنے ملک سے بدلہ لیا نہ ہی ملک کے اداروں سے بلکہ وہ تو پاکستان سے بدلے لے رہی ہیں ‘ براہ راست اوربالواسطہ دونوں طریقوں سے وہ پاکستان سے کرکٹ کے تعلقات توڑ کر اور سارک کانفرنس جو پاکستان میں ہوئی تھی اسکا بائیکاٹ کرکے براہ راست بدلہ لے رہی ہیں اوربنگلہ دیش جماعت اسلامی کے وہ اکابرین جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستان کی حامی بھری تھی انہیں سزائے موت دیکر بالواسطہ بدلہ لیا۔ البتہ ایک بات دونوں میں مشترک ہے وہ یہ کہ حسینہ واجد کی حکومت بھارت کی گود میں بیٹھی ہے اوراسکے اشاروں پر چل رہی ہے اورنواز شریف اورانکا پورا خاندان بھی بھارت کے اشاروں پر چل رہا ہے۔ اسکے باوجود حسینہ واجد نہ اپنے اداروں سے ٹکرارہی ہے اورنہ اپنے ملک کے مفادات کا سودا کررہی ہے۔ بلکہ اسکے اقدامات سے بنگلہ دیش ترقی کررہا ہے۔ اسکے برعکس نواز شریف اورمریم بی بی افواج پاکستان کے خلاف گھناﺅنی سازش کرتے ہیں جو ڈان لیکس کے نام سے مشہور ہے۔ اقتصادی طورپر پاکستان کو کئی عشروں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ پچھلے چار سالوں میں پاکستان کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کے مہیب جال میں پھنسا دیا۔ محض پچھلے چار سالوں میں آئی ایم ایف سے مزید35ارب ڈالر قرض لیکر پاکستان کے مجموعی قرضوں کو تقریباً 76ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ ریڈیو پاکستان سمیت بیشتر حساس اثاثہ جات کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا۔ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں پہلی بار بیرونی تجارتی خسارہ 32.5ارب ڈالر تک پہنچادیا گیا۔ اس وقت پاکستان کی سالانہ برآمدات کا درآمدات کے مقابلے میں تناسب تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہے یعنی سالانہ برآمدات 20ارب ڈالر اوردرآمدات 52.5 ارب ڈالر ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران صرف پنجاب میں مبینہ طورپر ڈیڑھ سو سے زیادہ ٹیکسٹائل کی ملیں بند ہوگئیں۔ یہ سب بجلی اور گیس کے نرخ حد سے زیادہ بڑھانے کے سبب ہوا۔ جبکہ بنگلہ دیش اوربھارت سمیت بیشتر ممالک میں بجلی اور گیس کے نرخ نہایت کم ہیں جسکے سبب وہاں کی زراعت اورصنعتیں پھل پھول رہی ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی صنعتوں اور زراعت کو تباہ کیاجارہا ہے تاکہ بھارت کو اسکافائدہ پہنچے ۔ یہی وجہ ہے ہماری درآمدات کو بھارت سے منسلک کرکے بھارت کو اقتصادی فائدہ پہنچایاجارہا ہے۔ اس وقت پاکستان بیرونی قرضوں پر14ارب ڈالر سالانہ صرف سود کی ادائیگی کررہا ہے۔ زراعت ہماری تباہ ‘کسان موجودہ حکومت سے شدید نالاں‘ صنعتیں آہستہ آہستہ تباہی کی طرف گامزن‘ تاجربرادری پریشان‘ بے روزگاری عروج پر ‘سرکاری اسپتالوں کا حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم تیسری دنیا کے بھی باشندے نہیں بلکہ چوتھی دنیا (جسکا وجود ہی نہیں) کے باشندے لگتے ہیں۔یہی حال تعلیمی پالیسی اورسرکاری اسکولوں کا بھی ہے۔ اس پر نواز شریف فرماتے ہیں کہ پاکستان ترقی کررہا تھا۔ انکی نظر میں اگر یہ ترقی ہے تو اندازہ لگائیں کہ تنزلی کس کو کہتے ہوں گے۔ موٹروے‘سڑکیں‘پل اورمیٹروبس منصوبوں سے اگر ملکوں کی ترقی کامعیار جانچاجاتا ہے تو کم از کم یہ اس کرہ ارض کی بات نہیں کررہے ہیں غالباً نواز شریف کسی دوسرے تخیلاتی سیارے کی باتیں کررہے ہیں۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود بنگلہ دیش پاکستان سے کہیں زیادہ ترقی کررہا ہے ا وراگر ایک پسماندہ ملک ویتنام کو دیکھا جائے تو اس ملک پر انیسویں صدی کے وسط سے 1945ءتک فرانس کا قبضہ رہا۔ پھر 1954ءمیں اسکے دو حصے ہوگئے جو شمالی اورجنوبی ویتنام کے نام سے موسوم تھے ۔ پھر دونوں ویتنام کی آپس میں21سالہ طویل جنگ ہوئی جو 1954ءتا1975ءتک جاری رہی جس میں بیرونی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ اس جنگ کا اختتام بالآخر جنوبی ویتنام کی شکست پر ہوا۔ اس طرح یہ دونوں جمہوریائیں ایک بار پھر متحد ہوگئیں اور1976ءمیں سوشلسٹ جمہوریہ ویتنام کے نام سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ ویتنام جنگ میں پستہ قد ویتنامیوں نے امریکیوں کی جو درگت بنائی دنیا کو آج تک یاد ہے۔طویل جنگ کے بعد کسی مضبوط سے مضبوط ملک کی اقتصادیات بھی بری طرح متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی جبکہ ویتنام کاشمار پسماندہ ملک کی طرح ہوتا تھا۔ لیکن آج اسی ویتنا کی ایکسپورٹ 160ارب ڈالر سالانہ ہے جو پاکستان سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ یاد رہے ویتنام کا رقبہ 3,29,707 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبہ سے آدھے سے بھی کم ہے اور اسکی آبادی بھی پاکستان کی آبادی سے آدھی سے کچھ زیادہ ہے۔ پاکستان کی ترقی یا تنزلی کے اصل اعدادوشمار تو ریکارڈ پر ہیں انکو کسی طور پر جھٹلایا نہیں جاسکتا‘ اسکے باوجود شریف برادران بڑی ڈھٹائی سے پاکستان کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بے اختیار خواجہ آصف کے عمران خان کے تاریخی دھرنے کے بعد قومی اسمبلی سے دھواں دھارخطاب کے دوران جو ”خصوصی “ کلمات ادا کئے ہیں وہ یاد آرہے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں اب جو اخلاق سے عاری سیاست کی جارہی ہے خصوصاً لوٹ مار پر پختہ یقین رکھنے والی پارٹیوں کا جو جھوٹ پر مبنی انداز سیاست جڑ پکڑ گیا ہے‘ اس سے بہت سارے اندیشے جنم لے رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسی پارٹیوں سے یا تو ہمیشہ کیلئے جان چھڑالی جائے یا پھر بڑے پیمانے پر ان سب کا بلاتفریق کڑا احتساب کیاجائے جو طویل مدتی (روائتی) قطعی نہ ہو بلکہ صرف قلیل مدتی ہو جس میں انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔ ورنہ بغیراحتساب ‘بغیر الیکشن کے قوانین میں ترمیم کے اورآئین پاکستان میں ضروری اضافوں کے بغیر آئندہ الیکشن کرانا ملک وقوم کے ساتھ سراسر ظلم ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن