اسلام صفائی کو ایمان کا حصہ اور نصف ایمان قرار دیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اور شہریان اسلامی جمہوریہ پاکستان موجودہ حکومت کے اس نعرے "Clean & Green Pakistan" کو ایک حقیقت بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نئی حکومت کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جہاں اس حکومت سے لوگوں کی کئی توقعات وابستہ ہیں اور جبکہ ابھی تک یہ حکومت قرضو ں میں جکڑی معیشت کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے الجھتی نظر آرہی ہے۔ وہاں اسکے ساتھ ساتھ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے سے میرااس حکومت کو صائب مشورہ ہے کہ کچھ عملی کام جو نظر بھی آسکیں ان پر توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے۔ جہاں تک حکومت کے عوام کو سستے گھر اور نوکریاں فراہم کرنے کے وعدے ہیں۔ اُمید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں جلد ٹھوس منصوبہ بندی سامنے لانے میں کامیاب ہو سکے گی تاکہ عوام الناس کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اسی طرح Clean & Green Pakistan کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی/حکمت عملی یا قانون سازی سامنے نہیں آسکی۔ اس وقت پاکستان کے بڑے شہر بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی اور بے ہنگم ٹریفک کی زد میں ہیں۔ شہروں کی صفائی کا انتظام بہت ناقص ہے اور جگہ جگہ کچرے اور ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ فضائی آلودگی اور گردو غبار میں اٹے ہونے کی وجہ سے ہمارے شہر دنیا کے دوسرے شہروں سے بہت پیچھے ہیں۔ اور ہمارے شہروں کا Air Pollutoin Indexبہت زیادہ ہے۔کچرے اور ملبے کو تلف کرنے کا کوئی باقاعدہ نظام نظر نہیں آتا۔ شہروں میں موجود خالی پلاٹوں، ندی نالوں ، نہروں یا شہر سے باہر خالی جگہوں پر یہ کوڑا کرکٹ پھینک دیا جاتا ہے۔ جہاں بے شمار جانور اور پرندے ان پر پرورش پاتے ہیں اور آندھی اور ہوائوں سے یہ کچرا ،گردو غبار کی صورت میں دوبارہ شہروں اور گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور بے شمار وبائی امراض کا باعث بنتا ہے۔ صفائی اور صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے دنیا جہاں بے شمار بیماریوں سے نجات پاچکی ہے ہمارے ہاں ابھی تک ٹائیفائیڈ ، تپ دق، خسرہ ، ملیریا، پولیو اور ڈینگی جیسے جان لیوا امراض موجود ہیں۔ اب جبکہ جدید ترقی یافتہ دنیا میں کچرے اور ملبے کو Recycle کیا جاتا ہے اور ایک ضابطے کے مطابق اس کو تلف کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عرصہ سے اس حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اور قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگر ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو صاف ستھرا اور بیماری سے پاک ماحول دینا ہے تو اس کا کوئی مستقل حل نکالا جانا ضروری ہے۔ جنگلات کے حوالے سے بھی ضرورت کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔فضائی آلودگی ، موسم کی شدت، گرمی کے عذاب سے نجات اور آندھیوں اور طوفانوں سے بچائو کیلئے بھی شجر کاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے بھی ٹھوس منصوبہ بندی کے علاوہ قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہالینڈ میں قانون کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کی فیملی کو بچے کے نام کا درخت لگانا پڑتا ہے۔ اور اس درخت کے بڑا ہونے تک اس کی دیکھ بھال بھی اس فیملی کے ذمہ ہوتی ہے۔ اسی طرح کوڑا کرکٹ یا ملبہ اپنے گھر، دکان، آفس، فیکٹری، ہسپتال یا کسی بھی قسم کے ادارے کے اردگرد پھینکنے والوں اور صفائی کا خیال نہ رکھنے والوں کے چالان کیے جا سکتے ہیں۔ چلتی گاڑیوں سے کوڑا باہر پھینکنے اور پبلک مقامات ، باغات ، بس سٹینڈز اور تفریحی مقامات پر کچرہ پھینکنے والوں کو بھی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔لاہور اورنج ٹرین اور پشاور میٹرو بس کے منصوبوں کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تاکہ ایک عرصہ سے عوام ان منصوبوں کے خوالوں سے جوعذاب بھگت رہے ہیں۔ اس سے ان کو نجات مل سکے اور اگر ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں کوئی تاخیر ہے تو کم از کم ان کے نیچے کی گرین بیلٹس کوPHAکی مدد سے مکمل کروانا چاہیے تاکہ یہ کوڑے کا ڈھیر بننے کی بجائے صفائی ستھرائی کا تاثر دے سکیں اور دیکھنے اور گزرنے والوں کے لیے کوفت کا باعث نہ ہوں اسی طرح میٹروبسوں اور اورنج ٹرین کے ستونوں اور شہر کی دیواروں پر جابجا اشتہارات لگانے ،وال چاکنگ اور شہر کو گندہ کرنے والوں کو بھی جرمانے ہونے چاہییں۔ شہر کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے او ر شہر کو گندگی اور آلودگی سے بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں انتظامیہ مکمل بے بس اور ہتھیار پھینک چکی ہے۔ اس سے کبھی بھی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ بلکہ بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ خالی ٹریفک سگنل توڑنے یا ہیلمٹ پہننے پر چالان نہیں ہونا چاہیے بلکہ سائیکل،موٹر سائیکل ، رکشہ ، گاڑی ، ویگن بس یعنی پبلک یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ حتی کہ ٹانگہ یا گدھا ریڑھی پر بھی زیادہ سواریاں بٹھانے اور ون وے کی خلاف ورزی پر بھی چالان ہونا چاہیے۔ آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ پہلے کسی زمانے میں موٹر سائیکل پر دو سے زائد سواریاں پر چالان ہوا کرتا تھا۔ مگر اب موٹر سائیکل پر تین یا اس سے زائد سواریاں بٹھا کر آرام سے موٹر سائیکل سوار گزرجاتے ہیں اور ٹریفک وارڈن انہیں کچھ نہیں کہتے ۔ اسی طرح قانون کے رکھوالے خود ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے عوام میں ان اداروں کا احترام کبھی پنپ نہیں سکتا۔ ٹریفک لائسنس کے حصول کیلئے باہر کے ملکوں کی طرح نظام کو ٹرانسپیرنٹ اور شفاف بنانا پڑے گا۔ رشوت اور سفارش کا نظام ختم کئے بغیر بہتری کی توقع رکھنا عبث ہو گا۔ جناب وزیر اعظم! جہاں آپ نے بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائش کیلئے آنیوالے وقتوں میں اونچی عمارات بنانے کا درست تصور پیش کیا ہے وہاں اُمید ہے کہClean & Green Pakistanکا نعرہ ایک خواب نہیں ایک اچھی منصوبہ بندی اور قانون سازی اور ایک اچھے تصور کی بنیاد پر جلد ایک حقیقت کا روپ دھار سکے گا۔