بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بلا جواز فائرنگ کا سلسلہ تو ایک عرصے سے جاری ہے مگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت آئین کی شق 370 اور 35/A کو ختم کرنے کے فیصلے سے جنگ کے ماحول کو ہوا ملی ہے اور پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص کنٹرول لائن پر جنگ کا ماحول ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بدستور کرفیو نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ پوری وادی میں کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوئی اور شہریوں کی زندگی اجیرن ہے۔ روزانہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جو ماحول نظر آتا ہے ناقابل بیان ہے۔ ان سب منفی ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری اپنے آزادی کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ ایک ہی نعرہ ہے آزادی اور کشمیر بنے گا پاکستان۔ وادی میں مسلح افواج میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن آزادی کی جدوجہد میں بھی مزید تیزی آ گئی ہے۔ کہنے کو تو بھارت بڑی جمہوریت اور مودی پوری سیکولر بھارت کے وزیر اعظم ہیں مگر انکے پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات اور مسلمانوں کے بارے میں نفرت انگیز رویے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف انتہا پسند ہندو جماعت BJP کے وزیر اعظم ہیں۔ بھارت میں عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اور لاوا پک رہا ہے جس کا خمیازہ مودی اور بھارت کو بھگتنا پڑے گا۔ آج پورے کشمیر میں تمام کشمیری جماعتیں اور رہنماء جو کبھی بھارت کی محبت میں مرے جا رہے تھے۔ جس میں شیخ عبداللہ ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد کے خاندان شامل ہیں وہ بھی آج دو قومی نظریہ کی اہمیت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ مودی نے اپنے متعصبانہ اور غیر دانشمندانہ رویہ اپناتے ہوئے پورے خطے کی سلامتی دائو پر لگا دی ہے۔ پہلے پلوامہ واقعہ کی آڑ میں آزاد کشمیر پر فضائی حملے کے ذریعے جنگی ماحول پیدا کی گیا۔ اب جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکن صدر سے کشمیر پر دو ٹوک بات چیت کی ہے اور صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر بھارت نے بوکھلا کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے سے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔ اگر حکومت اور مسلح افواج پاکستان کا رویہ اور سوچ مثبت نہ ہوتی تو بھارت اور مودی جیسا رویہ ہوتا تو جنگ کب کی ہو چکی ہوتی۔ ان کے وزیر دفاع راج ناتھ کا بیان کہ ایٹمی حملے میں پہل بھی کر سکتے ہیں۔ اس پرپاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے درست کہا کہ جب کوئی سٹھیا جاتا ہے تو ایسی ہی بونگیاں مارتا ہے کوئی ہوش مند اور اہم ذمہ داری پر بیٹھے ہوئے شخص سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں جس سے پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس جو کہ پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی ہے جس میں کہا گیا کہ کشمیر عالمی مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل ہو گا۔ بھارت کا یہ کہنا کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے بھارت کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستانی حکومت سمجھتی ہے کہ یہ لڑائی ہر محاذ پر لڑنی ہے اور وہ شروع دن سے ہی اسی مشن پر کاربند ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے درست کہا کہ بھارت نے سرحدوں کی خلاف ورزی کی تو بھر پور سرپرائز دیں گے اور بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا قبضہ چھڑانے کا وقت بھی آ گیا ہے۔ وہ آزاد کشمیر کو بھول جائیں ۔ نریندر مودی نے 370 اور 35-A کا خاتمہ کر کے ایک طرح اچھا ہی کیا ہے ۔ اس سے کشمیر 1947ء کی پوزیشن میں چلا گیا اور جو کہ سرد خانے میں تھا۔ سلامتی کونسل سمیت پوری دنیا کے حکمرانوں نے بھارتی رویے کی مذمت کی اور ایک بار پھر ہر فورم پر مسئلہ کشمیر ڈسکس کیا جا رہا ہے۔ پانچ دہائیوں کے بعد سلامتی کونسل میں اٹھایا گیاہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی قوتوں کو بے حسی کا رویہ اپنانے کی بجائے بھارتی اقدامات پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ کوئی بھی تاخیر خطے کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع درست اور دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس سے جنگ کے ماحول میں مسلح افواج پاکستان اور قوم میں استحکام اور مضبوطی آئی ہے۔ معاشی طور پر اس کے ملک میں بہتر اثرات پڑے ہیں کیونکہ قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف ملک کے استحکام اور معاشی اہداف حاصل کرنے میں حکومت کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔ اور پاکستان کی تاریخ میں سول ملٹری بہتر Relationship نظر آئی ہے جو کہ ملک اور قوم کے لئے بہتر ہے جو حکومتیں اور افراد اپنے ہی اداروں اور سربراہوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں وہ منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔