فلم انڈسٹری بہتری کی جانب گامزن‘ سٹوڈیوز کی جگہ بڑے گھروں نے لے لی

لاہور (رپورٹ: سیف اﷲ سپرا) پاکستان فلم انڈسٹری نے بحالی کی طرف سفر شروع تو کر دیا مگر یہ رفتار انتہائی کم ہے۔ جب یہ انڈسٹری عروج پر تھی تو سالانہ ڈیڑھ سو سے دو سو تک فلمیں ریلیز ہوتی تھیں جبکہ زوال کے دور میں یہ تعداد نصف درجن تک رہ گئی۔ اب سال میں بیس سے پچیس فلمیں بن رہی ہیں۔ فلم انڈسٹری کے عروج کے دنوں میں سینما گھروں کی تعداد اڑھائی ہزار کے قریب تھی جو زوال کے دنوں میں صرف 65 تک رہ گئی۔ تاہم اب کراچی‘ لاہور اور فیصل آباد میں ڈیجیٹل سینما ہیں۔ اسی طرح فلم انڈسٹری کے عروج کے دنوں میں فلم سٹوڈیوز کی تعداد 15 سھی جن میں گیارہ فلم سٹوڈیوز لاہور میں تھے اور 4 کراچی میں تھے۔ لاہور کے فلم سٹوڈیوز میں شاہ نور (جو ملکہ ترنم نور جہاں اور شوکت حسین رضوی نے بنایا تھا) اور اس میں شاہ کا لفظ شوکت حسین رضوی اور نور کا لفظ نور جہاں سے لیا گیا۔ اب صرف تین سٹوڈیوز ایورنیو‘ باری اور شاہ نور لاہور میں بچے ہیں جن میں فلمسازی کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ فلم انڈسٹری کے عروج کے دور میں خریدو فروخت کے لئے ’’رائل پارک‘‘ کے نام سے ایک فلمی منڈی بھی وجود میں آئی تھی جس میں 15 سو سے زیادہ دفاتر تھے اب اس فلمی منڈی میں فلمی دفاتر کی تعداد صرف 6 رہ گئی ہے۔ پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور سینئر فلم ڈائریکٹر سید نور نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری نے بڑا عروج دیکھا ہے پھر اس پر زوال بھی آیا مگر اب اس نے بہتری کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ اس کے زوال کی بڑی وجہ فلموں کے غیر معیاری موضوعات تھے۔ اب ایک طرف تو موضوعات بہتر ہو گئے ہیں اور دوسرا ڈیجٹل ٹیکنالوجی آ گئی ہے جس نے بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں جس کی بدولت بہت سارے نئے لوگوں نے فلمسازی شروع کر دی ہے۔ فلم سٹوڈیوز میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پرانے زمانے میں لوگوں کے بڑے گھر نہیں ہوتے تھے۔ اب جدید قسم کے گھر میسر ہیں لہذا فلم میکرز اب سٹوڈیوز کی بجائے اوریجنل گھروں میں شوٹنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا کہ لاہور کسی زمانے میں پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز تھا۔ اور اس لاہور کے ہی حوالے سے اسے لالی ووڈ کہا جاتا تھا۔ آج بھی کہنے کو لالی ووڈ کہا جاتا ہے لیکن اب نہ لالی رہی نہ ووڈ رہا۔ لالی لولی پاپ بن گئی اور ووڈ کو دیمک کھا گئی۔ ڈیجیٹل سینما ضرور بنے ہیں جو کہ بین الاقوامی معیار کے ہیں لیکن ان کو بھی چلانے کے لئے فلمیں نہیں ہیں۔ وہ سینما مالکان مجبور ہیں کہ بھارتی فلمیں چلائیں۔ لیکن بھارتی فلمیں بند ہونے کے بعد اب پاکستانی فلمیں زیادہ سے زیادہ بننی چاہیئں جس کیلئے حکومت کو بھی مدد کرنی چاہئے۔ فلم انڈسٹری کو بھی ایک قومی ادارہ سمجھ کر اس پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں کراچی والوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اس انڈسٹری کا بھرم رکھا ہوا ہے۔ کچھ فلمیں بن رہی ہیں۔ پاکستان فلم ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چودھری اعجاز کامران چیمہ نے کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے حالات اب کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ امید ہے مسقبل قریب میں فلم انڈسٹری مزید بہتری کی جانب گامزن ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن