جج ویڈیو سکینڈل : مداخلت نہیں کر سکتے ، اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کی سزا بر قررار رکھے یا ختم کرے: سپریم کورٹ

Aug 24, 2019

اسلام آباد+ لاہور (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو سکینڈل کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس مرحلے پر معاملے میں مداخلت سپریم کورٹ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ جج ارشد ملک کے کردار سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ ہزاروں ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ارشد ملک عدلیہ کی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔ ہائیکورٹ نوازشریف کی سزا برقرار اور ختم بھی کر سکتی ہے۔ نوازشریف کو ویڈیو ہائیکورٹ میں پیش کیے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ معاملہ اپیل کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے، ہائی کورٹ از خود یا درخواست کے ذریعے معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے۔ زیر غور درخواستوں میں ہمارے سامنے پانچ سوالات تھے کہ کو نسی عدالت یا فورم اس معاملے کا جائزہ لے سکتا ہے؟، کیا ویڈیو مستند ہے؟۔ اگر اصلی ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟، ویڈیو کے نواز شریف کی سزا پر اثرات کیا ہوں گے، جبکہ پانچواں سوال جج کے طرز عمل سے متعلق تھا۔ ہم نے فیصلے میں ان پانچوں سوالات کا تفصیلی جواب دیا ہے۔ سپریم کورٹ آفس نے بعد میں پچیس صفحات پر مشتمل فیصلہ عدالت کی ویب سائٹ پر جاری کیا جو چیف جسٹس نے خود لکھا ہے ۔ فیصلے میں پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس مرحلہ پر سپریم کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی ، بالخصوص جب متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ہائی کورٹ ریکارڈ پر موجود شواہد کا جائزہ لے کر نواز شریف کی سزا بحال، تبدیل یا کالعدم کرسکتی ہے۔ اس مرحلے پر حکومت یا سپریم کورٹ کی طرف سے کسی بھی انکوائری کی حیثیت محض رائے کی ہوگی اور اس سے نواز شریف کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مبینہ ویڈیو کا نواز شریف کو اس وقت تک فائدہ نہیں پہنچ سکتا جب تک اس ویڈیو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت اپیل میں قانون کے تحت مناسب طریقے سے پیش کیا جائے تاکہ ویڈیوکے مستند ہونے کا تعین کرکے قانون کے مطابق بطور ثبوت مقدمے کا حصہ بناکر استعمال کیا جائے۔ اس ضمن میں عدالت نے آصف علی زرداری کے مقدمے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں ججوں کی بدنیتی ثابت کرنے کے لئے آڈیو ٹیپس پیش کئے گئے تھے۔ دوسرے سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سائنس نے بہت ترقی کی ہے اور فرانزک تجزیہ کرکے ویڈیو کی اصلیت معلوم کی جاسکتی ہے جبکہ معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش بھی شروع کر دی ہے، فرانزک آڈٹ کے ذریعے اصل حقائق سامنے لائے جاسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تیسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کوئی آڈیو، ویڈیو مستند ثابت ہوجائے تو اسے قانون شہادت کے تحت بطور ثبوت استعمال کیا جاسکتا ہے اور ضابطہ فوجداری کی سیکشن 428کے تحت اپیلیٹ کو رٹ اضافی شواہد بطور ثبوت مقدمے کا حصہ بنانے کی مجاز ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو مستند ثابت ہونے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ ازخود، نواز شریف یا کسی اور فریق کی درخواست کے ذریعے اسے اضافی شواہد کے طور پر قبول کرسکتی ہے لیکن اس صورت میں ہائی کورٹ اس منطق کو تحریری صورت میں بیان کرے گی جس کی بنیاد پر اضافی شواہد کو بطور ثبوت قبول کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خود یا مجسٹریٹ کے ذریعے اضافی شواہد ریکارڈ کرے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو اور ٹیپ اسوقت تک بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتی جب تک یہ اصل ثابت نہ ہو جائے، ہائی کورٹ میں اگر کوئی فریق ویڈیو پیش کرے تو عدالت اس پر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے، کسی بھی ویڈیو کو بطور شہادت قبول کرنا متعلقہ عدالت کا حق ہے، متعلقہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ یہ ویڈیو ایڈٹ شدہ ہے یا حقیقی، ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ویڈیو کو عدالت میں چلایا جانا بھی ضروری ہے، ویڈیو میں موجود اور بولنے والوں کی آواز کی شناخت ہونی چاہیے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ، ویڈیو کی بحفاظت کسٹڈی اور عدالت میں پیش اور ثابت کرنا بہت ضروری ہے، کوئی فریق جو اس کو بطور شہادت پیش کرے اس کو ویڈیو کے تمام متعلقہ معاملات کو ثابت کرنا ہو گا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کے کنڈکٹ کے قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ شہادتیں یا ٹرائل جج کے کنڈکٹ سے متاثر ہونے کا فیصلہ کرے گی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ شہادتوں کا دوبارہ خود جائزہ لے کر اپیلوں کا میرٹ پر دستیاب شہادتوں سے فیصلہ کرے یا معاملہ از سر نو جائزہ کے لئے ٹرائل کورٹ کو بھیج دے ۔ فیصلے میں جج ارشد ملک کے طرز عمل کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سے معاشرے میں عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور ہزاروں ایماندار ،راست باز اور شفاف ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں،اس طرز عمل سے تمام عدلیہ کی بدنامی ہوئی ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے،جس میں انہوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے،جج ارشد ملک ملزم کے ہمدردوں سے ملاقاتیں کرتا رہا،انھیں دھمکیاں اور لالچ دی گئیں لیکن انھوں اعلی عدلیہ کو آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی خود کو ٹرائل سے الگ کیا ،جس کو سزا دی ان سے ان کے گھر میں ملے اور ان کے بیٹے سے بھی ملاقات کی جبکہ ملزم کو اپیل میں مدد بھی فراہم کی،ا س طرح ایک جج کا تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا لیکن انھیں اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا، امید ہے ارشد ملک کو ان کے اصل محکمے میں بھیج کر انضباطی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔جج ویڈیو سکینڈل کے معاملے پر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے انتظامی کمیٹی کا اجلاس 26 اگست کو طلب کرلیا ہے۔ رجسٹرار نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تحقیقات کی جائے گی۔ اجلاس میں ویڈیو سکینڈل پر غور کیا جائے گا۔ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ ہمایوں امتیاز نے بتایا کہ ارشد ملک کی ان کے عہدے سے معطلی کے بعد تحقیقات شروع کی جا رہی ہے۔ ہائیکورٹ کے سینئر ترین ججز پر مشتمل ایڈمنسٹریٹو کمیٹی ملک ارشد کے بارے میں اجلاس میں ان کی معطلی کے بعد مزید فیصلے کرے گی۔ سابق جج ارشد ملک نے لاہور ہائیکورٹ رپورٹ کر دی ہے۔

مزیدخبریں