ٹی وی شو کرنے کے بعد میں تھکا ماندہ گھر لوٹ کر بستر میں گھسنے کا حاجت مند ہوتا تھا۔میرے موبائل پر مگر دوستوں کے فون آنا شروع ہوجاتے۔ میر حاصل خان بزنجو ان کی محفل میں موجود ہوتا۔انہیں مجبور کررہا ہوتا کہ مجھے ہر صورت وہاں بلایا جائے’’تانکہ‘‘ وہ میری بے عزتی کرے۔ یہاں رونق لگائے۔ میں سوبہانے تراشنے کے باوجود بالآخر وہاں جانے کو مجبور ہوجاتا۔ اب ایسے فون نہیں آئیں گے۔ حاصل اس دُنیا میں نہیں رہا۔
تعلق میرا اس سے دیرینہ اور ضرورت سے زیادہ بے تکلف تھا۔اس سے ملاقات سے کئی برس قبل 1970کے آغاز میں اس کے والد غوث بخش بزنجو صاحب سے کراچی میں ایک نہیں تقریباََ روزانہ ہی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔میں نے بلوچستان کی تاریخ،ثقافت اور سیاست کے بارے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ملکی اور علاقائی سیاست کے بے شمار پہلوئوں کے بارے میں بھی آگہی حاصل کی۔ اہم ترین بات یہ سیکھی کہ معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ذاتی خواہش وترجیحات کو قطعاََ نظرانداز کرنا ہوتا ہے۔علم پر کسی شخص کا اجارہ نہیں ۔ لوگ آپ کی ذاتی رائے سے اختلاف کریں تو انہیں اپنا دشمن تصور نہ کریں۔ان سے مکالمہ جاری رکھیں۔محض دلائل کی بنیاد پر ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کی رائے سے متفق ہوجائے۔بے شمار لوگوں کی طرح میں بھی انہیں ’’بابا‘‘ پکارتا تھا۔ بلوچستان کے ایک دور دراز اور پسماندہ ترین قصبے سے اُبھرے غوث بخش بزنجو نے فٹ بال کا کھلاڑی ہونے کی بنیاد پر قیامِ پاکستان سے قبل علی گڑھ یونیورسٹی سے وظیفہ پر تعلیم حاصل کی تھی۔وہ کسی سردار کے فرزند نہیں تھے۔ان کے قبیلے کو ’’اساطیری‘‘ ہونے کا دعویٰ بھی نہیں تھا۔زندگی بھر کی لگن اور مشقت سے مگر ’’نال‘‘ نامی گائوں سے اُبھرے غوث بخش بزنجو دُنیا بھرمیں بلوچ حقوق کے حتمی ترجمان شمار ہوئے۔ ’’بابائے بلوچستان‘‘ کا لقب ملا۔اپنی زندگی کے کئی برس جیلوں میں صرف کرنے کے بعد ان کی تنظیم سازی کی صلاحیتوں کی بدولت 1970میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان میں پہلے انتخاب ہوئے تو ان دنوں کی نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کی سب سے مقبول جماعت بن کر اُبھری۔بلوچستان کی تاریخ میں پہلی منتخب صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ اس جماعت کے سردار عطااللہ مینگل ہوئے۔غوث بخش بزنجو طاقت وراور بااختیار گورنر لگائے گئے ۔ایران کے شہنشاہ کو مگریہ بندوبست ہرگز نہ بھایا۔ اسے فکر لاحق ہوگئی کہ پاکستانی بلوچستان میں جمہوریت کا فروغ واستحکام ایرانی بلوچستان کے باسیوں کو بھی اپنے حقوق یاد دلانا شروع کردے گا۔امریکی جریدے ’’ٹائمز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے تڑی لگائی کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ پاکستان کے بلوچستان پر فوجی حملے سے بھی باز نہیں رہے گا۔مشرقی پاکستان کھودینے کے بعد ہماری حکمران اشرافیہ بھی نئے بندوبست سے خوش نہیں تھی۔منتخب حکومت کو چند ہی ماہ بعد برطرف کردیا گیا۔اسی برطرفی کے باوجود غوث بخش بزنجو نے حیران کن فراخدلی سے مسلسل مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے لئے 1973کا آئین متفقہ طورپر تیار کرنے اوراسے منظور کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس کے باوجود ’’غدار‘‘ ٹھہرائے گئے۔ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے ہاتھوں ’’کالعدم‘‘ قرار پائی۔ ’’حیدرآباد ٹربیونل‘‘ کے نام پر اس کے رہ نمائوں پر ’’بغاوت‘‘کے مقدمات قائم ہوئے۔جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگانے کے بعد یہ مقدمات ختم کئے۔غوث بخش بزنجو کو اپنے نظریات کی بنیاد پر جواذیتیں برداشت کرنا پڑیں وہ کئی قدآور لوگوں کو بھی مایوس بنادیتیں۔وہ مگر مرتے دم تک اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔مصر رہے کہ ’’آزاد بلوچستان‘‘ محض ایک سراب ہے۔اسے ہر صورت فیڈریشن آف پاکستان‘‘ کا حصہ رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے آئینی اور سیاسی جدوجہد جاری رکھنا ہوگی۔’’بابائے جمہوریت‘‘ کی اس سوچ نے بلوچ نوجوانوں کے انتہاپسندوں کو بہت ناراض کیا۔ وہ انہیں ’’بابائے مذاکرات‘‘ کے طعنے دیتے رہے۔ انہوں نے جو فضاء بنائی وہ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد 1988میں ہوئے انتخابات میں بزنجو صاحب کی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے شکست کا سبب ہوئی۔اپنی شکست سے دلبرداشتہ ہوئے وہ ایک سال بعد اس دُنیا سے کوچ کرگئے۔حاصل ہر اعتبار سے ان کا حقیقی وارث تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے فلاسفی کا طالب علم ہوتے ہوئے سیاست میں متحرک ہوا۔ بالآخر کئی برس کی جدوجہد کے بعد 1997میںپہلی بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ وہاں پہنچنے کے بعد اس نے نواز شریف کی دوسری حکومت کا اتحادی ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی وجہ سے میں اس ’’ترقی پسند قوم پرست‘‘ کو ’’میرے لاہور سے آئے پنجابی سرمایہ دار کا چمچہ‘‘ ہونے کے طعنے دینا شروع ہوگیا۔ وہ ڈھیٹوں کی طرح مسکراتے ہوئے مجھے ’’گوادر سے آج ہی صبح آئے‘‘ جھینگے کھلانے کو مدعو کرلیتا۔میری اس کے ساتھ بے تکلفی اس دن یقینا ساری حدیں پار کرگئی جب قومی اسمبلی میں وہ آئینی ترمیم منظوری کے لئے پیش ہوئی جسے ’’نظامِ شریعہ‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ میری دانست میں نواز شریف صاحب اس کی بدولت ہمارے ’’امیر المومنین‘‘ بننا چاہ رہے تھے۔ وہ اس کی حمایت میں گنتی کے وقت کھڑا ہوا تھا تو پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے میں نے اسے ’’کھلا‘‘ دکھایا‘‘ ۔دائیں ہاتھ کے پنجے کے ذریعے بھیجی لعنت۔بعدازاں اپنے انگریزی کالم میں یہ بھی لکھا کہ حاصل کے ’’شرعی نظام‘‘ کی حمایت میں کھڑے ہونے کے دوران ’’سیکولر‘‘ غوث بخش بزنجو اپنی قبر میں بے چین ہوگئے ہوں گے۔بجائے ناراض ہونے کے حاصل خان بزنجو نے میرے اس کالم کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں کئی مشترکہ دوستوں کو بھیجیں۔ اس تبصرے کے ساتھ کہ شاید میں نے صحیح لکھا ہے۔ایسے بڑے دل والے حاصل کو جس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی اور جو اپنا ہی مسلسل مذاق اڑانے کا عادی تھا آج سے ایک سال قبل پھیپھڑوں کا کینسر لاحق ہوگیا۔تشخیص کرتے ہوئے ڈاکٹروں نے زندہ رہنے کے لئے اسے ’’محض چند ماہ‘‘ دئے۔ بہت خاموشی سے اس نے امریکہ میں مگر ایک ڈاکٹر ڈھونڈا۔ اس سے کیموتھراپی کروائی اور چند ہفتوں بعد اپنے مخصوص انداز میں ایک ڈھیٹ بیل کی طرح جھومتے ہوئے سینٹ کے اجلاس میں شریک ہونے اسلام آباد آگیا۔ پارلیمانی صحافیوں کی اکثریت میری یہ ’’خبر‘‘ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئی کہ میرا دوست ایک موذی مرض کا شکار ہوگیا ہے۔مجھے اس کی زندگی کی فکر لاحق ہے۔انہیں گماں ہوا کہ شاید بڑھاپے نے مجھے ‘‘مہذب‘‘ بنادیا ہے۔میں اس کا ’’لحاظ‘‘ کرنا شروع ہوگیا ہوں۔اپوزیشن کی جماعتوں میں شامل کئی سینیٹر مگر حاصل خان بزنجو کا ’’لحاظ‘‘ رکھنے کو آمادہ نہیں ہوئے۔گزشتہ برس فیصلہ ہوا کہ عمران حکومت کو ’’جھٹکا‘‘ دینے کے لئے سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹادیا جائے۔ منطقی اعتبارسے یہ ایک آسان ترین ہدف نظر آیا۔ایوانِ بالا میں جب سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو 104کے ہائوس میں سے 64افراد اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے۔ووٹنگ کے لئے بیلٹ پیپر پر تنہائی میں مہر لگاتے ہوئے مگر ان میں سے 16لوگوں کے ضمیر ’’جاگ‘‘ گئے۔ صادق سنجرانی حیران کن حد تک اپنے منصب پر بدستور فائز رہنے میں کامیاب رہے۔حاصل کو دغا دینے والوں کی آج تک نشان دہی نہیں ہوسکی۔ گزشتہ جمعہ کے روز اپوزیشن بنچوں پر موجود اس کے باوجود تقریباََ ہر سینیٹر نے کھڑے ہوکر حاصل کو دھواں دھار تقاریر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔صرف پرویز رشید کو یہ توفیق ہوئی کہ دُکھی دل سے اعتراف کرتا کہ حاصل کے آخری ایام میں اس کے ساتھ بے وفائی ہوئی۔کینسر سے لڑتے ہوئے بھی حاصل نے اپوزیشن کو صادق سنجرانی کو شکست دینے کیلئے اپنا سرپیش کیا تھا۔اسے پنجابی محاورے والی ’’اشکل‘‘دینے والوں میں سے 16مگر پولنگ بوتھ کی تنہائی میں ’’بکری‘‘ ہوگئے۔کاش ان میں سے کوئی ایک شخص جمعہ کے روز سینٹ میں کھڑے ہوکر کھلے دل سے بیان کردیتا کہ مندرجہ ذیل مجبوریوں کی بنیاد پر وہ ’’لوٹا‘‘ ہوجانے کو مجبور ہوا۔ ایسا مگر ہرگز نہیں ہوا۔فقط تقریریں ہوئیں۔حاصل کے انتہائی قریبی دوستوںمیں سے ایک ہوتے ہوئے مجھے یقین کی حد تک گماں ہے کہ شاید اس کی ڈھیٹ ہڈی ابھی مزید کچھ روز کینسر کا مقابلہ کرسکتی تھی۔اس کے والد کی 1988میں شکست نے انہیں اداس کرتے ہوئے موت کی جانب دھکیلا تھا۔ حاصل کے ساتھ صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریکِ عدم اعتماد کے خجالت آمیز نتیجے نے بھی یہی سلوک کیا۔اسے مزید اداس کرنے کو وہ واقعہ ہی کافی نہیں تھا۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں-پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی - نے اس واقعہ کے بعد سے ’’حقیقت پسند‘‘ ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔عمران حکومت کو اب انتہائی محنت اور خلوص سے اہم ترین قوانین کو عجلت میں منظور کروانے کے لئے ان کی جانب سے ہر نوعیت کی سہولت پہنچائی جارہی ہے۔حاصل خان بزنجو جیسے ’’انقلابیوں‘‘ کی ضرورت نہیں رہی۔ غالباََ ان ہی لوگوں کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ ’’یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔مرکیوں نہیں جاتے‘‘۔ حاصل خان بزنجو کینسر سے بچ بھی جاتا تو ’’اپنے ہی دوستوں‘‘ کی بے وفائی کے ساتھ مزید زندہ نہ رہ سکتا۔ میرا دُکھ مگر اب یہ بھی ہے کہ ’’ہورچوپو‘‘ کے طعنے دیتے ہوئے میں اسے ’’آج ہی گوادر سے آئے‘‘ جھینگے کھلانے کو مجبور نہیں کرسکتا۔