غالباً 1989کی بات ہے مجھے بلوچستان کا ساحلی علاقہ دیکھنے کا موقع ملا میرے ہمراہ لاہور ، کراچی اور اسلام آباد کے سینئر صحافی بھی تھے اسلام آباد سے نصرت جاوید ہمارے قافلے کے سالار تھے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواب اکبر بگٹی نے میری دعوت پر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے میٹ دی پریس پرو گرام میں شرکت کی تو انہوں نے بلو چستان کے پسماندہ علاقے کا دورہ کرانے کا وعدہ کیا ۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی کو کراچی سے ملانے کے لئے کوئی پختہ سڑک نہ تھی پی آئی اے کا فوکر طیارہ کراچی سے تربت پہنچا تو بلوچستان کی پسماندگی ہمارا استقبال کرنے کے لئے کھڑی تھی ۔ ائر پورٹ سے ایک دو کلو میٹر ہی سڑک پختہ ہو گی ہم نے گوادر جیونی (پاکستان کی آخری سرحد)تک لیوی کی حفاظت میں ناپختہ سڑک پر ہی سفر کیا ۔ میں نے تربت ، پنجگو ، پسنی گوادر اور جیونی کے گلی کوچوں اور بازاروں میں جگہ جگہ غوث بخش جونیجو کی آویزاں تصاویر دیکھیں تو بتایا گیا کہ میر غوث بخش بزنجو کو اس علاقے کے عوام اپنا ’’سیاسی پیر ‘‘سمجھتے تھے یہی وجہ ہے میر غوث بخش بزنجو بے تاج بادشاہ تھے میر غوث بخش بزنجو سے پہلی ملاقات70ء کے عشرے کے اوائل میں نتھیا گلی میں الیکٹرک چیئرز پر اس وقت ہوئی جب وہ گورنر بلوچستان تھے میں ایک حادثے میں زخمی ہو گیا تھا انہوں میری مرہم پٹی دیکھ کر خیریت دریافت کی جب میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کا صدر بنا تو وہ جب بھی یہاں آتے میری دعوت پر پریس کلب میں رونق افروز ہوتے پھر اسی ناطے میرے ان کے صاحبزادے میر حاصل بزبجو سے تعلق قائم ہو گیا جس نے دوستی کی شکل اختیار کر لی بعد ازاں وہ بھی راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے میٹ دی پریس پروگرام میں شرکت کرتے رہے ان سے عمر بھرا تعلقات قائم رہے وہ تھے بلوچ قوم پرست لیڈر لیکن بلوچوں کی سروائول پاکستان کی فیڈریشن میں سمجھتے تھے وہ بلوچوں کی حقوق کی بلند آواز تھے لیکن وہ بندوق کی طاقت کی بجائے پارلیمنٹ کی طاقت سے بلوچوں کے حقوق حاصل کرنے کے حامی تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا تو قرعہ فال میر حاصل بزنجو کے نام نکلا اور انہیں چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لئے مشترکہ امیدوار نامزد کردیاہے اسے سیاسی المیہ کہیں یا کچھ اور سینیٹ میں اپوزیشن کی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے اپنی ’’شکست‘‘ پر جو تاریخی تبصرہ کیا وہ آج بھی یاد ہے اتنی جرات و استقامت میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے کو ہی تھی جو بہادری سے بات کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے قوم پرست لیڈر کی حیثیت سے بلوچستان کی ساحلی پٹی میں مقبول ترین لیڈر تصور کئے جاتے ہیں ان کا خاندان پچھلی سات دہائی سے بلوچی سیاست میں سرگرم عمل ہے وہ ان بلوچ قوم پرستوں کے لیڈر تصور کئے جاتے ہیں جو پاکستان کی فیڈریشن پر یقین رکھتے ہیں میر غوث بخش بزنجو کا شمار 1973ء کا آئین بنانے والوں میں شمار ہوتا ہے ،۔ نیشنل پارٹی پچھلی تین دہائی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہے حاصل خان بزنجو اس وقت سینیٹ کی بزنس ایڈوائزی کمیٹی، قانون اور انصاف، آبی ذرائع، خزانہ، مجوزہ قانون سازی اور ایوی ایشن کی کمیٹیوں کے رکن تھے ۔ 11جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن جماعتوں نے ایوان بالا میں صادق سنجرانی کی جگہ بلوچستان کے خضدار سے تعلق رکھنے والے میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار نامزد لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے ۔ وہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔سینیٹر میر حاصل بزنجو فروری 1958 میں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خضدار اور کوئٹہ سے حاصل کی۔ 1979 میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا جبکہ جامعہ کراچی سے آنرز کرنے کے بعد فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ میرحاصل بزنجو نے 1970 کی دہائی میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972 میں بلوچستان سٹودنٹس آرگنائزیشن (بی ایس اوکے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ میرحاصل بزنجو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف تشکیل دیے جانے والے قوم پرست اور ترقی پسند طلبا کے اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔1985 تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی )میں متحرک رہے۔ 1988میں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ان کے بڑے بھائی بزن بزنجو1990 کے عام انتخابات قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے بعد ازاں ایک نشست چھوڑ دی جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1997 کے عام انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔1998 میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو چھوڑ کر منحرف اراکین کے گروپ بلوچستان ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوگئے اور سربراہ منتخب ہوئے۔ 2003 میں نئی سیاسی جماعت نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2005 سے 2008 تک نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے۔2009 میں پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ 2014 میں نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ 2015 میں دوبارہ سینیٹر منتخب ہوئے اور نواز شریف کابینہ میں شامل ہوئے اور جہاز رانی و بندگاہوں کے وفاقی وزیر بنے۔انکاشمار بلوچستان کے معتبرسیاستدانوں میں ہوتا تھا۔ میر حاصل بزنجو بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ ساتھ
مختلف سیاسی اجتماعات میں شرکت کرتے رہے۔انہوں نے سیاست کا باقاعد عملی آغاز اس وقت کیا جب وہ وہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے، اس مقصد کے لیے انہوں نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن(بی ایس او)کا پلیٹ فارم منتخب کیا۔ جنرل پرویز مشرف دور میں ملک میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے لیے جدوجہد کے دوران وہ کئی بار جیل میں رہے ۔
بڑے باپ کا بڑا بیٹا…حاصل بزنجو
Aug 24, 2020