بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی افادیت ختم کر دی کیوں نہ نظرثانی کر لی جائے

بھارت نے دریائوں کا بہائو بتانے سے انکار کر دیا، پھر آبی جارحیت پر کار بند، سیلاب کا خطرہ
دریائے چناب میں ریلے کے بعد پاکستان اور بھارتی کمشنر سندھ طاس میں رابطہ ہوا۔ بھارت نے چناب سمیت تینوں مشرقی دریاؤں کا بہاؤ بتانے سے پھر انکار کر دیا۔ لہٰذاراوی‘ ستلج اور چناب میں اچانک بڑے ریلوں کے خدشات بڑھ گئے۔ بھارت کے عدم تعاون اور سندھ طاس معاہدے پر عمل نہ کرنے کے باعث پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا۔ متعلقہ حکام کو صورتحال پر گہری نظر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسری جانب سیالکوٹ سے نامہ نگار کے مطابق دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام رات نچلے درجہ کا سیلاب تھا جو کم ہو کر 99ہزار کیو سک ہو گیا۔ محکمہ آب پاشی کے مطابق ہیڈمرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں گزشتہ روز پانی کا بہاؤ بڑھ کر ایک لاکھ چون ہزار سات سو چون کیوسک ہو گیا جو نچلے درجہ کا سیلاب تھا۔دریں اثناء شمالی کشمیر میں بھارتی فوج نے ایک کشمیری نوجوان اور 5 دیگر افرادکو سرحد پر درانداز قرار دیکر شہید کر دیا۔
بھارت نے کشمیریوں کا عرصہ حیات عذاب بنانے کی ہرممکن کوشش کی ۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کی ۔ کشمیریوں کی حمایت پر بھارت کوئلوں پر لوٹنا نظر آتا اور پاکستان کے خلاف انگارے اُگلتا رہتا ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سازشوں کے جال بنتا اور ممبئی ، پٹھان کوٹ ، اُڑی اور پلوامہ جیسے ڈرامے رچانا اس کی فطرت اولیٰ ہے مگر اس کے ایسے ہتھکنڈے پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے دستبردار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ کشمیر کے اندر پاکستان نے کبھی مداخلت نہیں کی۔ کشمیری فطری طور پر پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں جس کا حق اقوامِ متحدہ نے استصواب کی صورت میں کشمیریوں کو دیا ہے۔ بھارت نے اس حق کو تسلیم کیا مگر 72 سال سے استصواب کی نوبت نہیں آنے دی۔ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت بھی بھارت کے لئے ناقابل ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں جتنی تیزی آ رہی ہے ، بھارت اتنی ہی زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار اور تلملا رہا ہے۔ اس کی طرف سے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں بے بنیاد طور پر ملوث کر کے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اس کا بدلہ بلوچستان ا ور آزاد کشمیر چکایا جا رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشتگردی کرانے کا یہ واضح اعتراف جبکہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ عالمی برادری کو اسی کو لے کر مودی سرکار کو لگام ڈالے اور کشمیریوں کو استصواب کا حق دلائے بصورت دیگر 5 اگست 2019ء کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی فورسز کی بربریت جس سطح پر پہنچ چکی ہے وہ انسانی المیہ کو فزوں تر کر دے گی۔ 
بھارت کے لئے پاکستان کا وجود ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کو پاکستان کا ترقی کرنا گوارہ نہیں۔ وہ پاکستان کو ہر صورت نقصان سے دوچار کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔حالات بھارت کی رعونت اور جابرانہ پالیسیوں اور سفاکانہ اقدامات پاکستان کو عملیت پر مجبور کر رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت آبی دہشتگردی کا ہتھیار بھی آزما رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ کبھی پاکستان کو اُس کے حصے کا پانی روک کر خشک سالی سے د وچار کرنے کی سازش کرتا ہے کبھی ڈیموں کے گیٹ کھول کر سیلاب مسلط کر دیتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا میں سندھ طاس معاہدہ 1960 میں طے پایا تھا، جس کے تحت بیاس، راوی اور ستلج کا پانی انڈیا کو مل گیا جبکہ دریائے چناب ، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ملکوں کا ایک اجلاس ہونا لازمی ہے تاکہ متنازعہ معاملات مل بیٹھ کر طے ہو سکیں۔ 
بھارت باقاعدگی سے اجلاسوں کے اہتمام میں بھی رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ اگر کبھی ایسے اجلاس ہوں تو کسی معاملے کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے دیتا۔ جب دریائے چناب ، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے تو اس کا پانی وہ قانونی طور پر استعمال نہیں کر سکتا مگر اپنی انسان کش فطرت کے باعث نہ صرف پانی وہ استعمال کرتا ہے بلکہ اس کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ اس پانی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے وہ دریائوں کے رُخ موڑ چکا اور غیر قانونی ڈیم بھی تعمیر کر رہا ہے۔ ان ڈیموں میں بگلیہار، کشن گنگا اور رتلے ڈیم شامل ہیں۔
بھارت نے اپنی متعصب سپریم کورٹ سے 33 دریائوں کو آپس میں مربوط کرنے کا فیصلہ کروا لیا اور پھر نریندر مودی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان جانیوالا پانی روک دیں گے۔ یہ ان کا محض دعویٰ ہی نہیں اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ مودی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ خون اور پانی اکٹھے نہیں چل سکتے ان کا اشارہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کی طرف تھا یہ چور مچائے شور والی بات ہے۔ اس خونریزی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ وہ یہ سلسلہ بند کر دے کو صرف پانی ہی بہے گا خون نہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اسی لئے قرار دیا تھا کہ وہاں سے آنے والا پانی پاکستانیوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اس لئے بھی پاکستان کوبھارت کے پنجہ استبداد سے اپنی شہ رگ چھڑانا ہوگی۔ بھارت جو کچھ بھی کرلے ،پانی کا بہائو ایک حد تک ہی روک سکتا ہے۔ پاکستان کو ہر صورت اسے اس اقدام سے باز رکھنا ہے۔ ہر قانونی جنگ لڑنی ہے۔ یہ بھی سوچنا ہے کہ بھارت کے جارحانہ رویے سے سندھ طاس معاہدے کی افادیت ختم ہو رہی ہے کیوں نہ اس معاہدے پر نظرثانی کرلی جائے۔ اس کے ساتھ ڈیموںکی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی، خصوصی طور پر کالاباغ ڈیم کی بھارت کے ایماء پر مخالفت کرنے والوں کی زبانیں اور ان کا ’’جیب خرچ‘‘ بند کرانا ہوگا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر مناسب فیصلہ ہے مگر یہ کالاباغ ڈیم کا متبادل نہیں۔ بھارت دریائوں کا رخ جتنا بھی موڑ لے، قدرتی بہائو کے ذریعے پانی نے پاکستان میں داخل ہونا ہے جسے ڈیموںمیں محفوظ بنا کر ضرورت کے وقت استعمال کیا جاسکتا ہے اور ڈیم سیلابی ریلے بھی روک سکتے ہیں،اس مقصد کیلئے کالاباغ ڈیم لاثانی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...