ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی سپاہیوں کے قتل کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا۔اس کے فورا بعد امریکہ اور اسرائیل نے ایران کو سزا دینے کی غرض سے خطے میں فوجیں جمع کیں لیکن ایران نے براہ راست تصادم میں کودنے کی بجائے موثر مزاحمتی حکمت عملی اپنانے کو ترجیح دی:ـ’’اگر ایران پر حملہ کیا جاتا ہے تو جوابی کاروائی متعدد سمتوں سے فری فلائٹ راکٹوں‘میزائلوں اور ڈرونز کے حملوںسے ہوگی جس سے اسرائیل کا آئرن ڈوم نامی ائر ڈیفنس سسٹم ناکارہ اور عوام کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ اس کے بعدبارود سے بھری گاڑیاں اسرائیل کے حفاظتی حصاروں کوتوڑدیں گی جس سے خود کش بمباروں کواسرائیلی سرحدوں کے اندر داخل ہو نے کا راستہ مل جائے گا اور وہ تباہی پھیلے گی جس سے دشمن کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔‘‘یہ صورت حال اسرائیل کے وجود کو مٹاکر رکھ دیتی‘ جس کا ادراک کرتے ہوئے انہوں نے خلیج فارس کا محاصرہ کرنے والے بحری بیڑے سمیت پسپائی اختیار کر لی ۔اطلاعات کے مطابق ’خفیہ حکمت علمی ‘‘ (Stealth Strategy) کے تحت ففتھ جنریشن(Fifth Generation) کے لڑاکا طیارے ایف 35 (F-35) استعمال کرتے ہوئے ایران میں متعدداہداف کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف ایران کے پاس دفاع کی صلاحیت محدود ہے : ’’ اسرائیل ایسی کاروائیوں کا مرتکب ہورہا ہے جن کا مقصد پراسرار طریقے سے ایران کے ایٹمی ومیزائل پروگراموں اور دیگر صنعتی اور بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ہے۔ سینیٹری فیوج کی پیداواری سہولتوں‘ میزائل تیار کرنے والے فوجی ٹھکانوں‘ پاور پلانٹس اور کیمیکل فیکٹریوں پر پراسرار دھماکے ہوئے۔گزشتہ ماہ خلیج فارس میں واقع بشہر کی بندرگاہ میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے سات بحری جہاز تباہ ہوگئے تھے۔‘‘اسی طرح 2002ء میں اسرائیل کی شکست کا انتقام اورلبنان میں حزب اللہ کو سزا دینے کے لئے بیروت کی بندرگاہ پر زوردار دھماکہ کیاگیا۔ایران کو تنہا کرنے کے لئے شیعہ سنی تنازعات کو ہوا دینے کا عمل عروج پر ہے۔1979ء میں رونما ہونے والے انقلاب ایران کے بعد امریکہ ایران کوخطے میں سنی عرب ممالک کے لئے خطرے کے طور پر پیش کرتا ر ہاہے اور انہیں اربوں ڈالر کا امریکی اسلحہ اور عسکری سازوسامان فروخت کیا ہے۔ اب جبکہ خطرہ سامنے ہے توان ممالک کے لئے اسرائیل سے دفاعی اسلحہ خریدنے کا راستہ کھل گیا ہے۔اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والے "Abraham Accord"معاہدے نے دہائیوں پر پھیلے عرب اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔’’اس معاہدے سے 2002ء میں طے پانے والے عرب ا من اقدامات کو نقصان پہنچا ہے جس معاہدے کے تحت مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا لیکن اب ان کے ساتھ بھی دھوکا کیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی علاقوں پرقبضہ کرنے کا عمل خاموشی سے جاری ہے جس نے’’ دو قومی حکمت عملی‘‘ کی تمام امیدوں کو خاک میں ملادیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عمان‘ بحرین اور سوڈان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔دراصل ایران کے خلاف ‘امریکہ‘ اسرائیل اور عرب ممالک پر مشتمل ایک سہ فریقی اتحاد قائم ہو چکا ہے جس کامقصد امن کا قیام نہیں ہے۔
ایران کا رد عمل
جوابی کاروائی کرتے ہوئے ایران نے بغیر وقت ضائع کئے چین کے ساتھ تذویراتی دفاعی شراکت داری قائم کر لی ہے ۔اس تذویراتی شراکت نے ایک سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے جو نئے عالمی نظام کے خدوخال واضح کرتا ہے۔ چین نے ایسا مالی نظام وضع کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو امریکہ اور اس کی’’دبائو میں رکھنے‘‘ والی پالیسی کی شکست ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین کے’’اقتصادی نظام‘‘ نے ’’اقتصادی مزاحمت‘‘ قائم کی ہے جو ایران سمیت اس حکمت عملی کی دفاعی چھتری کے نیچے آنے والوںکو تحفظ فراہم کرے گی ۔ چین کے ’’اقتصادی نظام ‘‘ نے جارحیت کی مرتکب قوتوں کے خلاف ایک بامعنی مزاحمتی نظام قائم کر لیا ہے جو ایران کواسرائیل کی نئی خفیہ حکمت عملی (Stealth Strategy)کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ امریکہ نے ’’ظلم و دہشت‘‘ اور’’انتہائی دباو‘‘ کے ہتھکنڈوں کے ذریعے گذشتہ چار دہائیوں سے متعددمسلم ممالک کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرتے ہوئے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا ہے اورآٹھ ملین سے زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے اور اب ایران اور دیگر کے خلاف‘ اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہا ہے جس سے مشرق وسطی کا پورا خطہ تباہی سے دوچار ہو جائے گا۔بلاشبہ واقعات کے اس اژدہام نے صورتحال کوالجھاکے رکھ دیا ہے۔مشرق وسطی کو اس قسم کی سیاسی و تذویراتی شکل دینے سے عربوں کو نہ ختم ہونے والی باہمی دشمنی اور ہلاکت کی آگ میں جھونکا گیاہے ۔اس وقت اسرائیل کوایف 35طیاروںکی وجہ سے فضائی برتری اور انٹیلی جنس کی سہولیات حاصل ہیں جس کی وجہ سے ایران آسان ہدف ہے۔ اب چین پر منحصر ہے کہ تصادم کے اس حساس نوعیت کے منظر نامے کا توڑ تلاش کرنے کی صلاحیت تلاش کرنے میں اسے کتنا وقت درکارہے۔چین کا لڑاکا طیارہ جے20 (J-20)‘ بھی ففتھ جنریشن کا ہے۔ شاید یہ طیارہ امریکی ایف 35 طیاروں کے خلاف مئوثر کاروائی کرنے کی صلاحیت کا حامل ہومگریہ بات جانتے ہوئے کہ بیرونی خلا میں سیٹیلائٹ کو مارگرانے کی صلاحیت رکھنے والے چین کے لئے ایف 35طیاروں کو مار گرانا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔جب ایسا ہوگا تو اسرائیل کی ’’خفیہ حکمت عملی‘‘ اورتکنیکی صلاحیتوں کے میدان میں حاصل مزاحمتی برتری کا غرور خاک میں مل جائے گا ۔
پاکستان کے لئے مناسب اقدامات
ایران اور پاکستان کو چین کی فراخدلانہ امداد کے باوجود‘امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے سبب‘ پاکستان کو اس صورت حال میں غیر جانبدارہنے کا مشورہ دے گا۔لہذا اب ہمیں ایٹمی صلاحیت کی بجائے اپنی’’ مزاحمتی صلاحیت‘‘ کے بارے دوسرے وسائل پرسوچنا چاہیئے۔ روایتی مزاحمت کی قیمت اور فری فلائٹ راکٹوں اور پیٹریایٹ میزائلوں کی قیمت کا فرق ہی ہماری مزاحمتی صلاحیت کا جوہری عنصرہے۔ہماری نیک خواہشات اسرائیل کے ساتھ امن کے خواہاںعرب ممالک کے ساتھ ہیں لیکن فلسطینیوں کے خون کی قیمت پر نہیں۔اس لئے کہ بہت جلدجب اسرائیلی وزیراعظم متحدہ عرب امارات کا دورہ کرے گااور اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا جائے گا‘جس کا پیغام ہے:
’’اس وقت تک ہمارے دشمنوںکو وحشت زدہ ہونے دو‘مصر اور کنعان میں بسنے والوں کوکانپنے دو‘بابیلون کے شہریوں پر کپکپی طاری رہنے دو‘ ان کے آسمانوں پرہماری طرف سے مصائب و دہشت جاری رہنے دو‘ جب ہم ان کے سینوں میں اپنا نیزہ داخل کریں گے اور ان کا بہتا ہوا خون اور ان کے سروں کو کٹا ہوا دیکھیں گے۔‘‘اس پیغام میں مسلمانوں کے قتل عام کا پیغام ہے۔
خون بہے گا‘ مہذب دنیا خاموش رہے گی لیکن:
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
مہذب دنیا شایداس قتل پر خاموش رہے لیکن ظالم کے ہاتھوں پرلگے ہوئے خون کے دھبے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ کی یہ رضا ہے( سورۃ الحج کی آیت 40) کہ یہ ظلم ناکام ہوکر رہے گا‘ جس طرح جرمن نازی یہودیوں کو ختم نہیں کرسکے‘ یہودی‘ فلسطینیوں کے جذبہ آزادی کو نہیں دبا سکتے‘ اور بھارتی کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو نہیں کچلا جا سکتا’‘ اس لئے کہ اللہ تعالی کا مقصود کچھ اور ہے:
’’اگر اللہ تعالی لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو(راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں‘ جس میں اللہ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ سے مدد طلب کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔‘‘ (الحج آیت ۴۰)
٭…٭…٭