حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر تبصرے مثبت اور منفی دونوں پہلو سامنے لا رہے ہیں۔ حکومت مخالف ہر بات غلط نہیں ہوتی۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں ہماری معیشت کو مستحکم دیکھ رہی ہیں۔ بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ برآمدات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاب زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیکسٹائل برآمدات 1.272بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ترسیلات 2ارب 76کروڑ 80لاکھ ڈالر پر آگئی ہیں۔ سب سے زیادہ پیسہ سعودی عرب سے بھیجا گیا۔ اس کے بعد امارات کا نمبر ہے۔ یورپی یونین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی کی قیمتوںمیں اضافے کی حقیقی وجوہ کی تلاش جاری ہے۔ اجناس کے بھائو تو منڈی مافیا طے کرتا ہے۔ کرونا وائرس کے اثرات اب تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ رواں مالی سال شرح نمو 1.2فیصد رہنے کی توقع ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں ڈالر کی قیمت 155روپے سے بڑھ کر 169روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ حجاج کرام پر بھی زرمبادلہ خرچ نہ ہوا لیکن ڈالر کی قیمت میں کمی کی صورت میں کیوں ظاہرنہیں ہوا۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ 5روپے فی کلو اضافے سے گھریلو سلنڈر 60روپے اور کمرشل سلنڈر 230روپے مہنگا ہوگیا ہے۔ ایل پی جی کی کل قیمت 105روپے ہوگئی ہے۔ تفتان بارڈر پر ایک درجن سے زائد ایل پی جی پلانٹس سیل کئے جانے کی وجہ سے ڈیڑھ ہزار افرادکو بیروزگاری کا سامنا ہے۔ ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے یومیہ کا نقصان بھی ہو رہا ہے۔ 5939یوٹیلیٹی سٹورز پر اکثر اشیاء کی قلت رہتی ہے، ان سٹورز کے ملازمین کی تعداد 14,500ہے۔ 22کروڑ عوام کیلئے ان سٹورز کا پھیلائو ضروری ہے۔ بازار میں قلت نہیں تو ان سٹورز پر کیوں ہے؟
حکومتی ترجمانوں کی زبانوں سے دو سال کی مثالی کامیابیاں گنوائی جا رہی ہیں پارلیمان کے دو سال کا خلاصہ یہ ہے کہ کل 29 سیشن ہوئے۔ 182 اجلاس ہوئے۔ حکومت نے قانون سازی کے لیے زیادہ تر صدارتی آرڈیننسوں کا راستہ اختیار کیا اور کل 38 آرڈی ننس منظور کئے گئے۔ صدارتی حکم ناموں کی بھرمار کی پارلیمانی جمہوریت کے استحقاق کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ ارکان اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کے لیے کم ہی وقت نکالتے ہیں۔
وزیر اعظم ایوان میں موجود ہوں تو اپنی حاضری یقینی بناتے ہیں۔ یہی حال قائد حزب اختلاف کی اجلاسوں میں حاضری کا ہے۔ قائد ہی کئی کئی ماہ اجلاس میں شرکت نہ کریں تو ارکان سے کیا شکوہ؟ خود وزیر اعظم دو سال میں صرف 21 اجلاسوں میں تشریف لائے۔ حکومت کی اہم کامیابیوں میں ایف اے ٹی ایف کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے حوالے سے قانون سازی ، کرتار پور راہداری کی تعمیر، دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز 68 لاکھ خاندانوں میں صحت کارڈ کی تقسیم ، احساس پروگرام کے تحت 14.37 ملین خاندانوں کی کفالت ، کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 65 فیصد ، تجارتی خسارے میں 35 فیصد کمی کورونا پر 1240 ارب روپے سے کنٹرول قابل ذکر ہیں۔ تاہم بے روزگاری کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ یوٹرن کی تعداد گنوانا وقت کا ضیاع ہے۔ یوٹرن بھی شاید نظریۂ ضرورت کی طرح ہے۔ دو سال بعد وفاق سندھ مفاہمت کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ دو کروڑ آبادی کا شہر کراچی پی پی ، پی ٹی آئی اور متحدہ میں چھینا جھپٹی کا شکار رہا۔ آئین میں وفاق اور صوبوں کے فرائض اور اختیارات کی واض تصریح موجود ہے۔ سالانہ پنشن کی مد میں 470 ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں جو تنخواہوں کی رقم 500 ارب کے قریب پہنچ گئی ہے۔ پنشن ، مہنگائی ، کرپشن اداروں کے نظم و نسق گردشی قرضے ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی حکومت کے لئے بڑے چیلنج ہیں اور صرف 3 سال باقی ہیں۔ یہ تو ملک کی خوش بختی ہے کہ بقول صدرمملکت فوج‘ عدلیہ‘ حکومت‘ میڈیا سب ایک صفحے پر ہیں۔ سب چاہتے ہیں قانونی‘ سماجی‘ معاشی انصاف ہو۔ کرپشن پر سمجھوتہ نہ ہو‘ ترقی کا سفرنہ رکے۔ صدر علوی اس سے قبل وہ 14 اگست کو حکومت کی دو سالہ کامیابیوں پر اسے غیرمعمولی خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔ حکومت کی سمت درست رکھنے کیلئے آزاد میڈیا اور عدلیہ ناگزیر ہے۔ جس معاشرے میں نقاد نہ ہوں‘ وہاں بگاڑ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اخبارات‘ ماضی کے مرحوم نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات‘ پاکستان ٹائمز‘ امروز اور مشرق کی طرح حکومت وقت کا ڈھول بجائیں گے تو خود بھی درگور ہو جائیں گے اور حکومتوں کو بھی کفن پہنائیں گے۔ کسی بھی گھر کے سارے افراد کبھی ایک صفحے پر نہیں ہوتے۔ ہر ایک کی فکر‘ سوچ‘ عقل اور مشورہ مختلف ہوتا ہے۔