’’این آر او کس نے مانگا‘‘شبلی فراز نے نیب بل پر مسلم لیگ ن ، پی پی کی سفارشات شیئر کردیں

Aug 24, 2020

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے نیب آرڈیننس ترمیمی بل پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سفارشات شیئر کر دیں۔ سماجی رابطوں کی سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ میں شبلی فراز نے احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مجوزہ ترامیم کے صفحات شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ کئی دنوں سے مسلم لیگ نواز لمیٹڈ ڈیمانڈ کر رہی تھی کہ این آر او کس نے مانگا، حضور والا یہ ہیں وہ ذرائع اور دستاویزات جن کی وساطت سے این آر او مانگا گیا۔ انہوں نے کہا تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار مسلم لیگ ن کی قیادت نے ملک اور قانون سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے شیئر کردہ دستاویز ات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 18میں مجوزہ ترامیم کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ نیب جرم کے ارتکاب یا رقوم کی منتقلی کو 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مبینہ جرم کی تحقیقات، تفتیش یا ریفرنس دائر نہیں کرے گا۔ دستاویز میں درج تھاکہ آرڈیننس کی ذیلی شقb میں نئی ذیلی شق (bb )متعارف کرانے کے بعد قومی احتساب بیورو مندرجہ ذیل صورتحال میں الزامات پر کوئی ایکشن نہیں لے گا۔(i) ایسی شکایت جو نامعلوم یا فرضی نام سے کی گئی ہو۔(ii) جس میں عوام کا پیسہ شامل نہ ہو۔(iii) جس میں شامل رقم ایک ارب روپے سے کم ہو۔ نیب آرڈیننس کی سیکشن 25میں ترمیم کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ذیلی شق اے کو ختم کیا جائے  اور ذیلی شق بی کے مطابق کہا گیا تھا کہ تحقیقات کا حکم دینے کے بعد یا انکوائری کے وقت، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے یا بعد میں یا اپیل کے زیر التوا ہونے کے دوران سرکاری عہدہ رکھنے والا یا کوئی بھی دوسرا شخص کسی جرم کے نتیجے میں بنائے گئے اثاثے یا حاصل کیے گئے فوائد واپس کرنے کی پیش کش کرے تو اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب، کیس کے حقائق اور پہلوو ں پر غور کر کے اپنی صوابدید اور جو شرائط و ضوابط وہ ضروری سمجھیں انہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی پیشکش کو قبول کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص چیئرمین نیب کی متعین کردہ رقم واپس کرنے پر راضی ہو تو اس کیس کو سرکاری عہدہ رکھنے والے یا کسی بھی شخص یا شریک ملزم کی رہائی سے متعلق کیس کو منظوری کے لیے عدالت یا اپیلیٹ کورٹ میں بھیجا جائے گا۔دستاویز میں لکھا گیا کہ اگر چیئرمین نیب اس قسم کی پیشکش سے انکار کردیں تو سرکاری عہدیدار یا کوئی بھی شخص اس پیشکش پر غور یا منظوری کے لیے براہ راست عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

مزیدخبریں