استاذالعلماء ، شیخ ا لحدیث و التفسیرحضرت مولانا ظہورالحق 1924کوگاوں دامان تحصیل حضروضلع اٹک میں حضرت مولانامفتی عبدالدیان صاحبؒ کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد محترم حضرت مولانامفتی عبدالدیان صاحبؒ بھی ایک عالم دین تھے اسی لئے حضرت مولانا "صاحبِِ حق "کے نام سے مشہور تھے آپ کے دادا جان حضرت مولانا عبیداللہ جی صاحبؒ بھی ایک عالم دین تھے۔ آپ کے دادا جان ( مولانا عبداللہ جی صاحبؒ) کانڑاں غربند (سوات) سے پرنسپل انوار اللہ صاحب اور ماسٹر امین اللہ صاحب کے دادا جان(حضرت مولانا موسیٰ خان صاحبؒ) کے پاس پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔ مولانا موسیٰ خان صاحب ؒنے اپنی بیٹی ان کو نکاح میں دیدی اور پھر وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے اور کانڑاں ملّا کے نام سے مشہور ہوئے۔استاذالعلماء ، شیخ ا لحدیث و التفسیرحضرت مولانا ظہورالحق صاحب ؒ ؒ رشتے میں میرے ماموں اور میری بیگم کے سگے خالو لگتے تھے اور ہم تمام رشتہ داروں میں بڑے ابّاجی کے نام سے مشہور تھے ۔ آپ ؒ نے اکوڑہ خٹک سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد جامعہ اشرفیہ ، لاہور میںتقریباً 2سال پڑھایالیکن خرابی صحت کی بناء پر آپؒ کو وہاں سے گاوّں آنا پڑا اور قریب میں گاوّں کاملپورموسیٰ کے مدرسہ جامعہ تعلیم الاسلام میں تقریباً 6سال تک پڑھایا۔اس کے بعد پھر جامعہ مدنیہ لاہورپڑھانے کے لئے تشریف لے گئے اور تقریباً16سال تک وہاں پڑھاتے رہے اور یہاں دورہ حدیث تک کی کتب پڑھائیں۔اور پھر اس کے بعد اپنی مسجد اور بیٹھک میں آخری دم تک اسباق پڑھاتے رہے۔آپؒ مولانا مفتی محمودؒ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ نے1953اور1974کی تحریک ختمِ نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گلی گلی محلے محلے میں ختمِ نبوت کا پیغام پہنچایا اور اسی کی پاداش میں 2ماہ جیل میں گزارے۔آپ کا تعلق جمیعت علمائے اسلام سے تھا اور آخری وقت تک اسی دینی جماعت کے ساتھ منسلک رہے فرمایا کرتے تھے "ــاس جماعت کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی کوششوں کومیں موثر سمجھتا ہوں"اور اکثر محفل میں یہ جملہ ارشاد فرماتے کہ ـ"مجھے جمعیت کے پرچم میں کفن دیا جائے" یہ آپ کا جمعیت سے والہانہ پن اور محبت تھی۔ آپ نے 1947 کی تحریک آزادی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضرت مولانا ظہورالحق صاحبؒ ضلع اٹک ، راوالپنڈی، چکوال، جہلم اور کے پی کے کے علاقوں میں ہر دینی اجتماع میں صدرِ مجلس ہوا کرتے تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود علاقے کے ہر جنازے میں شرکت اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے تھے۔مارچ سن 2020 میں راشد علیزئی جنرل سیکرٹری جمیعت العلماء اسلام اٹک کی وفات پر باوجود شدید علالت کے تیسرے روز دعا کے لئے حضرو تشریف لائے۔ اپریل سن 2020 میں جب میری بہن کا جنازہ تھا توباوجود علالت اورتکلیف کے کرسی پر بیٹھ کر جنازہ پڑھایا تھا ۔ علاقے کے لوگ ان سے نکاح پڑھوانا اپنی خوش بختی سمجھا کرتے تھے۔ایسی مہرباں اور شفیق شخصیت کو بھلانا بہت مشکل ہے۔ آپ شب ِجمعہ 08اپریل 2021بمطابق25شعبان المعظم 1442ہجری کو دار فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے خالق ِحقیقی سے جا ملے اوراگلے دن بروز جمعہ دن دس بجے آپ کی نماز جنازہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ شہیدکے بھائی حضرت مولانا انوارالحق صاحب نے پاکستان بھر سے ہزاروں سوگواروں، اہلِ علاقہ اور کشیر تعداد میں ان کے شاگردوں کی موجودگی میں پڑھائی۔نماز جنازہ پڑھنے سے قبل عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ٓاپ کے جسد خاکی کی زیارت کر رہا تھا ۔ آپ کی نمازجنازہ میں شرکت کے لئے قومی اسمبلی میں جے یو ائی (ف) کے پارلیمانی لیڈر، مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے بیٹے مولانا اسعد محمودصاحب اور ان کے علاوہ مولانا مفتی رضاء الحق صاحب، مولانا قاری ڈاکٹر عتیق الرحمٰن صاحب، شیخ الحدیث مولانا یوسف شاہ صاحب، مولانا قاضی محمد ارشدالحسینی صاحب، شیخ الحدیث مولانا امتیاز خان صاحب، مولانا عرفان الحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی تاج الدین ربانی صاحب، مفتی امیر زمان صاحب،مولانا محمد نعیم قاسمی صاحب اور مولانا محمد مسعود اختر ضیاء صاحب تشریف لائے ان سب حضرات نے مولانا ظہورالحق صاحبؒ کی نماز جنازہ سے پہلے ان کی زندگی پر روشنی ڈالی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اس موقع پرعلماء کرام نے استاذالعلمائ، شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا ظہو رالحق صاحبؒ کے صاحبزادے مولانا جسیم الدین کو ان کا جانشین مقرر کرتے ہوئے ان کی دستار بندی کی۔ دستار بندی کے بعد نماز جنازہ پڑھائی گئی جس کے بعدمنکسرالمزاج ایک عالم با عمل ایک راہبر ردائے خاک اوڑھ کراہل علاقہ، رشتہ داروں اور شاگردوں کی آہوں اور سسکیوں میں ابدی نیند سو گیا۔ استاذالعلما ء شیخ ا لحدیث و التفسیرحضرت مولانا ظہورالحق صاحبؒ انتہائی حلیم دل، سادہ طبع اور خلوص سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی شخصیت میں اللہ عزوجل نے اتنے اوصاف اور خوبیاں پیدا کررکھی تھیں جن کا یہاں احاطہ کرنا مشکل ہے بلکہ اس پرایک ضخیم کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔ آپ اخلاص و للہیت ، تواضع و انکساری کا مجسم پیکر تھے۔ باوجود تین بیٹوں کے امریکہ اور ایک بیٹے کے انگلینڈ میںرہائش پذیر ہونے کے، آپ کا طرزِ رہائش تکلفات سے پاک، انتہائی سادہ تھا جس کا آج کے دور میں تصور بھی شاید ممکن نہیں۔ جب وہ کسی سے مصافحہ یا معانقہ کرتے تھے تو پہلے مسکراتے تھے بعد میں مصافحہ یا معانقہ کرتے تھے محفل میں جتنے بھی لوگ ہوں ہر ایک کے ساتھ اُن کا یہی رویہ ہوتا تھاہر ایک سے شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے ہم سب کو بچو کہہ کر پکارتے تھے۔ ایسے لوگوں کا دنیا سے چلے جانے کے بعد ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ ہم بچشمِ نم ان کے لئے دعائے مغفرت کریں انہیں اچھے الفاظ سے یاد کریں اور ان سے وابستہ یادوںکو تازہ کریں۔