پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے بہت بحث ہوتی ہے۔ سیاسی اور عوامی سطح پر عموماً زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات پر گفتگو رہتی ہے۔ بالخصوص سیاست دان اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں یا پھر عوامی مقبولیت کے لیے امریکہ کی مخالفت کا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی امریکہ مخالف بیانیہ اپنایا ہے۔ حالانکہ اس نعرے میں بھی حقیقت عوام کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ فرض کریں کہ پی ٹی آئی دوبارہ حکومت بناتی ہے تو کیا وہ اس نعرے پر قائم رہ پائے گی جب کہ وہ امریکہ میں امیج بلڈنگ کے لیے ایک فرم کی خدمات بھی حاصل کر چکی ہے۔ ماضی میں بھی سیاسی جماعتیں ایسا ہی موقف اختیار کرتی رہی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد معاملات نسبتاً مختلف ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک پاکستان امریکہ کے کیمپ میں رہا ہے گوکہ پاکستان کے چین کے ساتھ بہت گہرے ، مضبوط اور قریبی تعلقات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا شمار ہمیشہ امریکہ کے اہم اتحادیوں میں ہوتا رہا ہے۔ افغانستان اور روس کی جنگ ہو یا پھر دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ ہی دیا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کے بجائے کسی اور کیمپ کا حصہ بنتا ہے تو کیا پاکستان اس کے لیے تیار ہے۔ کیونکہ امریکہ سے شراکت داری کا خاتمہ صرف ایک ملک سے جدائی کا معاملہ نہیں ہے اس کے بعد پاکستان کو انگلینڈ، کینیڈا، یورپی یونین سمیت دیگر اہم ممالک اور عالمی تنظیموں میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا پاکستان اس بڑی تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ یقیناً نہیں، کیا ہم نے اس راستے پر چلنے کی تیاری کر رکھی ہے یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ایسی غیر حقیقی گفتگو ہوتی ہے جس وجہ سے معاشرے میں بدامنی پھیلتی ہے۔ نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور عملی طور پر ہم کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
امریکہ کے اس خطے میں بہت مفادات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہر حال میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ چین پر نظر رکھنے اور اس کی ترقی کو روکنے کے لیے امریکہ کام کرتا رہتا ہے بالکل اسی طرح امریکہ کو روس سے بھی خطرہ ہے۔ روس کی سرگرمیاں بھی امریکہ کے لیے پریشان کن ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان اگر یہ سمجھے کہ وہ غیر جانبدار رہ کر معاملات چلا سکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے اور پاکستان کی چین کے ساتھ بھی گہری دوستی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا ہی دانشمندی ہے۔ امریکہ، چین، پاکستان، بھارت اور روس اس خطے میں کچھ نہ کچھ کرتے رہیں گے۔ امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ روس اور یوکرائن کی جنگ بھی معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان پر چین کا غیر معمولی ردعمل یہ بتاتا ہے کہ خطے میں کیا چل رہا ہے۔ نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان پر چین نے تائیوان کے قریب جنگی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا۔روس نے بھی امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر کے دورہ تائیوان کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کی وجہ سے کشیدگی کی سطح کو کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ تائیوان کا موقف، چین کا موقف، امریکہ کی دلچسپی، روس کی مذمت یہ تمام چیزیں مستقبل کا نقشہ کھینچ رہی ہیں۔ امریکہ کسی صورت خطے سے دور نہیں رہنا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی صورت پاکستان سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اب یہ فیصلہ سازوں کا امتحان ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو مل بیٹھ کر اپنی جغرافیائی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ہم کیوں غیر ضروری تنازعات میں الجھے رہتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم کیوں اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب ہم بغیر سوچے سمجھے کسی کی جنگ کا حصہ بن جائیں ہم کیوں تیار نہیں رہتے۔ کیا ہم ملک کی بہتری کے لیے بھی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
بھارت کی طرف سے پانچ اگست دو ہزار انیس کے غیر قانونی اقدام کے تسلسل میں مقبوضہ کشمیر میں بیس لاکھ غیر مقامی ووٹرز کو شامل کرنے کا امکان ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کو تبدیل کرنے کی ہندوستانی غیر قانونی کوششوں کو انتخابی حالات کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی جبر کی ایک صریح کارروائی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔یہ ایکٹ سیاسی شعبدہ بازی ہے جس کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈالنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کیا ہے۔ فاشسٹ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں عوام کو دبانے کے لیے ایک کٹھ پتلی بی جے پی وزیر اعلیٰ لگانے پر تلی ہوئی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے۔
مقبوضہ وادی میں ہندوستان کی طرف سے انتخابی فہرستوں میں غیر مقامی لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش بی جے پی کے آر ایس ایس کو سیاسی ذرائع سے فاشسٹ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے قابل بنائے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں بشمول بھارت نواز نے غیر قانونی اقدام کی مخالفت کی ہے۔ کشمیری عوام نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بھارتی خلاف ورزی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں حق خود ارادیت دیا گیا ہے۔ کیا مسلم دنیا کو اج بھی اس اہم انسانی مسئلے پر خاموش رہنا چاہیے۔