محمد ریاض اختر
riazakhtar.nw@gmail.com
آخر ہم کب تک صحت عامہ کے لیے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہیںگے۔ حکومت ہیلتھ بجٹ میں اضافہ کرکے ڈاکٹروں کیلئے ترغیابات رکھے۔ صحت کی سہولتوں کا آغاز سکولوں کی سطح سے ہونا چاہیے جب تک ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ صھت مند طبی ماحول نہیں دیں گے ایک صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلے میں رواں ماہ کے دوران قومی اسمبلی سے لے کر ملک بھرمیںہر جگہ جہاں کہیں نونہالوں کو تقریبات میں شرکت کا موقع ملا ، مقررین نے اپنی تقاریر میں صحت اور تعلیم کے ساتھ غریب والدین کا بھی تذکرہ کیا جو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچوں کو محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ ننھے مقررین بھی اس دوران حکومت سے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے توجہ اوراقدامات کا مطالبہ کرتے رہے۔
افسوس آج وطن عزیز میں تعلیم اور صحت دونوں سہولتیں کم آمدن کے حامل خاندانوں کیلئے ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ اگر کسی طالب علم کے والدین کو سکول انتظامیہ کی طرف سے نظر معائنہ کی ہدایت ملے تو دس پندرہ دن تک ماں باپ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیونکہ والدین ڈاکٹری معائنے کی چند سو روپے فیس کہاں سے لائیں اور اگر سرکاری ہسپتال سے نظر کا معائنہ کرالیا بھی جائے تو وہ عینک کے لیے معقول رقم کا بندوست کیسے کریں!کبھی حکومت پاکستان کی طرف سے سکولوں میں باقاعدہ طبی ٹیمیں آیا کرتی تھیں۔ ماہرین صحت کی قیادت میں یہ ٹیمیں سکولوں کا وزٹ کرتیں۔ بچوں کا معائنہ ہوتا نظر کی تشخیص ہوتی اور صحت اور نظر کی بیماری سے متاثرہ بچوں کوادویات اور عینکیں مفت فراہم کی جاتیں۔ماہرین چشم بھی بچوں کو سٹاک میں موجود عینک گفٹ کر دیتے ۔ بچوں میں خشک دودھ کے پیکٹ بھی اسی دور کی یادیں تازہ کرتے ہیں، اسی دور کے شاہکار کارناموں میں لنچ کی فراہمی بھی تھی۔موجودہ حکومت کو بھی صحت دوست اس جیسی پالیسیوں کو اپنانا ہو گا ۔ یہ سیکمیں کیوں روک دی گئیں اس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے۔
حالیہ برسوں میں سارا زور ڈینگی وائرس‘ پولیو اور کورونا وائرس کے خاتمے کی مہم پر لگا ہوا ہے جیسے ہی پولیو مہم شروع ہوتی ہے وفاقی وصوبائی حکومتیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف سے التجاء ہے کہ وہ نونہالوں کی صحت کے بہترین مفاد میں ماضی کی یادگار طبی سیکمیں دوبارہ شروع کی جائیں۔ اس سلسلے میںصدر پی ایس این ڈاکٹر افضل بابر نے بتایا کہ تعلیم اور صحت دونوں میدانوں میں ہماری مجموعی حالت قابل ذکر نہیں‘ ایوان اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے تعلیم وصحت کواپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، موجودہ حکومت کو صحت کے شعبہ میں بڑے ا قدامات کرنا ہوں گے ۔عالمی ادارہ صحت سے منسلک رہنے والے چیئرمین نیو صدیق سکولز سسٹم ڈاکٹر حسن ظہور عباسی نے بتایا کہ 1985ء سے قبل حکومت سکولوں پر خاص توجہ دیتی تھی، اسی پالیسی کے سبب ڈاکٹروں کی ٹیمیں گورنمنٹ سکولز کا وزٹ کرتی تھیں ،آج حالت یہ ہے کہ شعبہ تعلیم وصحت حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔ پبلک وپرائیوٹ سیکٹر میں کسی سطح پر اشتراک نہیں‘ محکمہ صحت کی طرف سے سوائے پولیو مہم کے کون سی ایسی خدمت ہے جو ادا کی جاررہی ہے ۔ کوہسار ہومیوپیتھک میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر طاہر اقبال چوہدری نے بتایا کہ کینیڈا‘ سعودی عرب‘ اسلامک بنک یونیسف اور دیگر عالمی اداروں سے ملنے والی گرانٹ شعبہ صحت پر پوری طرح خرچ ہو تو ہمارے مسائل میں بتدریج کمی ہوتی رہے۔ شہبازشریف حکومت نئے ہسپتالوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کررہی ہے اگر یہ مشن باقاعدگی سے جاری رہتا تو صحت کے مسائل جمع نہ ہوتے …چیئرمین ینگ ڈاکٹرز ویلفیئر فورم پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ دیہات کی بڑی آبادی آج بھی صحت کے مسائل سے دوچار ہے۔ بعض بنیادی ہیلتھ مراکز بند پڑے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد بدر عالم کا کہنا تھا کہ صحت کی سہولتوں کا آغاز سکولز سے ہونا چاہیے بچوں کو بہتر تعلیم وطبی ماحول دیئے بغیر‘ مضبوط اور صحت مند معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
کپیشن
٭… ڈاکٹر حسن ظہور عباسی
٭…ڈاکٹر افضل بابر
٭…پروفیسر ڈاکٹر طاہر اقبال
٭…ڈاکٹر محمد سلیمان
٭…ڈاکٹر بدر عالم