پی ایچ ڈی مقالے کا دفاع 


بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ کامرس  میں
 اللہ دتہ ملانہ کا مقالہ اقوام عالم کی مستحکم اور پائیدار ترقی کے لئے کلیدی کردار کو عیاں کرتا ہے
نوجوان محقق نے ثابت کیا کہ بیوروکریٹک گورننس کی بجائے مستحکم گورننس کا نظام زیادہ بہتر ہے
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان شعبہ کامرس کے پی ایچ ڈی سکالر اللہ ڈتہ ملانہ کا مجلسی دفاع کے موقع پر چیئر مین ڈاکٹر حنیف اختر، سپر وائزر ڈاکٹر ذیشان محمود، ایگزامینر ڈاکٹر وارث علی، پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ کوثر، پروفیسر ڈاکٹر آ صف یاسین و دیگر اساتذہ کے ہمراہ گروپ فوٹو

توقیر بخاری 
تحقیق کسی بھی معاشرے کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے تاریخ گواہ ہے جن  اقوام نے علم اور تحقیق پر اپنے وسائل خرچ کئے  ان اقوام نے اقوام عالم پر کئی دہائیوں تک راج کیا ہمارے ملک پاکستان میں تحقیق کا عمل تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے گو کہ ابھی تک مملکت خداداد نے اس میں وہ بام عروج حاصل نہیں کیا جو کہ  ترقی یافتہ اقوام کو حاصل ہے لیکن اس کے باوجود کچھ چراغ ایسے ہیں جو اپنی دشت میں جل کر سویرا بکھیرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ایسے ہی  ایک  قابل اور ہونہار چراغ کا   جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی جامعہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ کامرس میں پی ایچ ڈی کے مقالہ کا دفاع دیکھنے کا  پچھلے دنوں موقع ملا۔ ویسے تو میں نے بہت   سے محققین کو اپنے مقالہ جات کا دفاع کرتے ہوئے سنا اور دیکھا مگر جس ذہانت اور پر اعتماد   انداز میں اس نوجوان نے اپنے مقالہ کا دفاع  کیا وہ قابل تحسین اور قابل داد تھا اور بہترین مقالہ نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ میں اس  قابل نوجوان اور اسکے مقالہ جات کے اہم مندرجات قلم کے زریعے اپکے گوش گزار کروں۔ اللہ دتہ ملانہ نامی یہ ہونہار نوجوان ضلع ملتان کے ایک نواحی علاقے ،دریائے چناب کی گزرگاہ موضع بیہلی سے تعلق رکھتا ہے جو کہ بجلی گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم علاقہ ہے ۔اس نے اپنی تعلیم کا سفر پیدل شروع کیا اور روزانہ دریائے چناب کو کشتی کے زریعے اور جب کشتی میسر نہ ہوتی تو دریا کو تیر کر علم کی پیاس بجھانے  بذریعہ سائیکل یونیورسٹی پہنچ جاتے اسی محنت اور لگن کے نتیجے میں آج ایئر یونیورسٹی ملتان میں معلم جیسا عظیم فریضہ سر انجام دے رہے ہیں سب سے دلچسپ اور بڑی بات یہ ہے کہ سکا لر قاری القرآن ہیں اور کئی قرآت مقابلے اپنے نام کر چکے ہیں۔  
 انکے مقالے کا عنوان اقوام عالم کی مستحکم اور پائیدار ترقی کے لئے پائیدار رپورٹنگ اور مستحکم گورننس کے کلیدی کردار کو عیاں کرتا ہے۔آج  کے اس مشکل ماحول میں ترقی یافتہ اور بلخصوص ترقی پزیر ممالک کے لئے مستحکم ترقی کا حصول زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے اقوام عالم سر جوڑ کہ بیٹھی کہ کس طرح مستحکم ترقی کا حصول ممکن بنایا جائے۔آخر کار عالمی رہنماؤں نے شبانہ روز کی محنت سے 27دسمبر 2015میں نیویارک میں منعقدہ اجلاس میں  مستحکم ترقی کے لئے کے لئے 17مشترکہ مقاصد اجاگر کئے  جن میں میں قابل ذکر غربت کا خاتمہ ،سستی توانائی ،اچھی تعلیم ،ماحولیاتی تبدیلی ،عدم مساوات کی حوصلہ شکنی ،صنفی مساوات ،بھوک کا خاتمہ ،صفائی اور صاف پانی،مستحکم معاشرے کا قیام،   اچھی صحت و تندرستی ،سکون، انصاف اور مضبوط اداروں کا قیام  شامل ہے اور انکو عالمی رہنماؤں  نے اقوام عالم  کے لئے  2030کے  ایجنڈے کے طور پر  پیش کیا ہے۔
عالمی دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ اور بالخصوص پزیر ممالک میں اسوقت بیوروکریٹک گورننس کا نظام نافذ ہے ۔تر قی جو کہ عالمی دنیا کے لئے بہت سے مسائل پیدا کر رہا ہے ان مسائل میں ماحولیاتی تبدیلی معاشی و معاشرتی مسائل شامل ہیں ۔  نوجوان محقق نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ بیوروکریٹک گورننس کی بجائے مستحکم گورننس کا نظام زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ معاشرتی ،معاشی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا  ہے
مستحکم گورننس کے نظام کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹنگ اور رپورٹنگ بالخصوص پا ئیدار رپورٹنگ کا بھی مستحکم ترقی میں بہت کلیدی کردار ہے کیونکہ  پائیدار رپورٹنگ  کا محور بھی  معاشی و معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل کے حل کے گرد گھومتا ہے۔  ترقی یافتہ ممالک میں اکثر بڑے ادارے اور بزنس کمپنیز  پائیدار رپورٹنگ کی بنیاد پر اپنی  مستحکم کارکردگی دکھانے کی روایت رکھتی ہیں جس سے کمپنی کی ترقی ہوتی ہے اور یہ ترقی ملک کی مستحکم ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے  اس تحقیق کے نتائج سے یہ  بات عیاں ہوتی ہے کہ پالیسی سازوں کے تمام متعلقین جیسے کاروباری  حضرات, عوام الناس،پالیسی ساز ،پالیسی پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کو مل بیٹھ کر مستحکم ترقی کے حصول کے کئے پالیسیاں ترتیب دینی چاہئے تاکہ تمام ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک جیسا کہ پاکستان جیسے ممالک مستحکم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر اقوام متحدہ کے 2030کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل پہنچایا جا سکے
اس مقالے کو  جانچنے کا فریضہ ایک  ملکی اور دو غیر ملکی  ماہرین نے سر انجام دیا جس میں پاکستان سے ڈاکٹر وارث علی جو کہ یونیورسٹی  آف ساہیوال میں بزنس ڈیپارٹمنٹ کے  چیئر مین  ہیں ،جبکہ غیر ممالک کے ماہرین میں پروفیسر ڈاکٹر زیلینٹیکا بلیبر  جو کہ  امریکہ کی سالم سٹیٹ یوینورسٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور پروفیسر ڈاکٹر  بیاگیو سائمنیٹی جو کہ یونیورسٹی آف سائنیو اٹلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ تینوں ماہرین نے متفقہ طور پر نوجوان سکالر کو ڈاکٹریٹ کی  ڈگری دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے ریمارکس میں تمام ماہرین نے نوجوان کے بہترین کام کی خوب پزیرائی کی اور ڈاکٹر وارث علی نے کہا کہ نوجوان سکالر نے جس احسن طریقے سے دنیا کو درپیش مسئلہ پر عملی مقالہ لکھا ہے وہ نہایت قابل تحسین اور قابل ستائش ہے اور اس کام کو سر انجام دینے میں ڈاکٹر زیشان محمود جو کہ سکالر کے سپروائزر  ہیں ، شاندار خراج تحسین کے حقدار ہیں۔  ہمارے ملک کے پالیسی سازوں کو اس بہترین اور عملی تحقیق سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے ۔

ای پیپر دی نیشن