انطالیہ اور ڈینیزلی ترکیہ دو تاریخی شہر ہیں جہاں سیاحوں کے دیکھنے کے لیے کئی اہم مقامات ہیں۔چونکہ یہ دونوں شہراسپارٹا کے قریب تھے اس لیے دونوں شہروں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈینیزلی اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کی وجہ سے مشہور ہے لیکن مقامی و عالمی سیاحوں کے لیے اس کے قدیم تاریخی مقامات کے علاوہ Pamukkale (اسے ترکیہ میں کپاس کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے) کے مقام کی وجہ سے کشش رکھتا ہے۔ یہاں پہنچ کر یوں لگتا ہے کہ پہاڑوں نے سفیدی کی چادر اوڑھ رکھی ہو۔ سخت گرمی میں چشموں سے نکلتا ہوا پانی جمع کرنے کے لیے خاص قسم کی تالاب بنائے گئے ہیں جہاں صاف اور شفاف پانی میں گرمی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے لوگ نہاتے ہیں۔ اس شہر میں موجود کھنڈرات سے پتا چلتا ہے کہ یہ شہر قدیم تاریخ رکھتا ہے۔یہ شہر عیسائیت کی قدیم تاریخ کے حوالہ سے بھی جانا جاتا ہے، میوزیم میں تقریبا ً پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح قدیم دور کا تھیٹر دیکھنے کا موقع ملا۔ گول شکل میں اسٹیڈیم کی طرز پر اس تھیٹر میں اسٹیج اور بادشاہ کے بیٹھنے کی جگہیں مخصوص واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔انطالیہ ترکی کا سب سے پرکشش سیاحتی مقام ہے۔ کرونا وائرس کی وبائ سے پہلے یہ واحدشہر تھا جہاں دنیا بھر میں سب سے ذیادہ سیاح آئے تھے، دستیاب اعدادوشمار کے مطابق رواں سال بھی گزشتہ سال کی نسبت 28فیصد ذیادہ سیاح ہیں۔ انطالیہ میں بانسری کا ایک مینار بھی ہے جس کی بنیاد دوسری صدی قبل مسیح میں بادشاہ اٹلس دوم نے رکھی تھی۔ یہ شہر تاریخی اعتبار سے رومیوں، بازنطینیوں اور سلجوقی سلطنت کے بادشاہوں کی توجہ کا مرکز بھی رہا ہے۔ سلجوق بادشاہ علاؤالدین کیکوباد نے تیرھویں صدی میں بانسری والے مینارکو تعمیر کیا جو وہاں کی علامت بن گیا۔ یہ شہر قدیم دور سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک اور پھر جدید ترکی سے لے کر موجودہ دور تک تاریخ کی بھرپور جھلک پیش کرتا ہے جس میں میوزیم، قلعہ، دروازے اور دیگر باقیات شامل ہیں۔
انطالیہ ایک ساحلی شہر ہے یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں یورپی سیاح کثیر تعداد میں آتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لوگ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے ان مقامات کا انتخاب کرتے ہیں۔ ساحلی شہر ہونے کے باعث یہاں لوگوں کی بڑی تعداد یورپی انداز کے مختصر لباس میں ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی توجہ اس بات پر نہیں ہوتی کہ کون کیا پہنتا ہے اور کون کیا کھاتا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ترکیہ کا قانون سیکولر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کسی کے نجی معاملات میں اس وقت تک دخل نہیں دیتی جب تک امن و امان میں خلل کا اندیشہ یا کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے۔ ساحلی پٹی پر آپ کو ایسی لوگ بھی ملیں گے جن کی خواتین نے انتہائی مختصر لباس پہن کر سمندر کنارے پانی سے لطف اندوز ہورہی ہوں گی جبکہ ایسی خواتین بھی ہوں گی جو مکمل لباس کے ساتھ جس میں سر سے لے کر پاؤں تک چادر ہو پہن کر پانی میں نہا رہی ہوں گی لیکن اس کے باوجود وہاں لوگ کسی کو گھور گھور کر نہیں دیکھتے۔ واپس اسپارٹا پہنچ کر سلطان دیمرل یونیورسٹی میں اس کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یونیورسٹی میں ایک خاص مقام پر یادگار تعمیر کی گئی تھی جس میں ان شہدائ کے نام لکھے ہوئے تھے جو 15 جولائی 2017کے واقعہ میں شہید ہوئے تھے۔ اس دن ترکیہ کی فوج نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جس پرشدید عوامی ردعمل آیا اور لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر یہ قبضہ ناکام بنایا اور ایک نئے جمہوری ترکیہ کی بنیاد رکھی۔ اس یادگار پر جہاں ترکیہ کا جہازی سائز پرچم لگایا گیا تھا وہ داخلہ مقام پر نوجوان طلبائ کے لیے مصطفی کمال اتاترک کا ایک پیغام درج تھا ’’اے نوجوانو! تم ہمارا مستقبل ہو ہم نے جمہوری ملک قائم کر دیا تم نے اسے مضبوط بنانا ہے ‘‘۔ اسی طرح سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا کہ ہر سیڑھی پر کچھ الفاظ درج تھے استفسار پر پتا چلا کہ ترکی زبان کے کچھ الفاظ متروک ہوچکے ہیں ان کی جگہ نئے الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں اور یہاں چڑھتے ہوئے آپ کو ایک طرف متروکہ الفاظ اور دوسری طرف اس کی جگہ نئے الفاظ لکھے گئے ہیں تاکہ نوجوان طلبائ آتے جاتے ان کو ذہن میں بٹھاتے رہیں یہ ایک خوبصورت طریقہ تھا یقینا ً جو طالب علم دن میں مسلسل دو یاتین دفعہ بھی ان سیڑھیوں سے گزرتا تو اس کی نظر ان الفاظ پر پڑھتی تھی اور اس طرح مسلسل ذہن میں رہنے سے یہ الفاظ یاد ہوجاتے ہیں۔ اسپارٹا میں یہ ہمارا آخری دن تھا، ہم نے شہر کے مرکزی بازار میں گلاب اور لیونڈر پھول کی بنی ہوئی مختلف اقسام کی اشیا ئ دیکھیں، شہر کی جامع مسجد میں نماز ادا کی۔ برادر ذیشان کی میزبانی اور ان کے روم میٹ حق نواز کی شاندار مہمان نوازی (اور ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے لذیذ کھانے جن میں پاکستانی ذائقہ اور خوشبو تھی) کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوروں کے دوران جہاں میری دلچسپی مختلف مقامات دیکھنے میں ذیادہ تھیں وہیں ڈاکٹر مبشرحسین کوشش کرتے تھے کہ مقامی معاشرہ، لوگوں کے رہن سہن، مذہب سے ان کے لگاؤ اور باہمی تعلقات پر ذیادہ سے ذیادہ معلومات اکٹھی کر سکیں۔ یہیں سے ہم نے اگلے دن کے لیے انقرہ جانے کے لیے سیٹوں کی بکنگ کروائی جہاں ہماری ملاقاتیں پہلے سے طے تھیں۔ اسپارٹا کی خوبصورت اور حسین یادوں کو دل میں بسائے ہم ایک نئے شہر انقرہ جو ترکیہ کا دارالحکومت ہے کی طرف چل پڑے جہاں اور عجائب ہمارے منتظر تھے) جاری ہے)