گدون آمازئی صنعتی علاقہ افیون اور پوست کا شت کے متبادل کے طورپر ضلع صوابی کے گدون آمازئی میں قائم کیا گیا تھا ۔ اُس وقت یہ علاقہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ تصور اور شمار کیا جاتا تھا۔ گدون آمازئی علاقہ 1700 کلومیٹر پر اور تقریبا 5 لاکھ افراد پر مشتمل ایک پہاڑی علاقہ ہے ۔ اس علاقے کے لوگ زیادہ تر آسودہ حال اور خوشحال نہیںکیونکہ حکومت پاکستان نے پوست فصل کاشت اور اسپر پابندی کا فیصلہ کیا جو اس علاقے کے لوگوں کا واحد ذریعہ آمدن تھا۔ما ضی میں گدون آمازئی جس میں تنول اور اتمان شامل تھے جو پوست کاشت میں نمبر 1 تھے کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا اس فصل کے لئے زبردست تھی۔ 1984میں حکومت نے اس علاقے میں پوست اورافیون کاشت اور اسکے پیداوار پر پابندی لگا دی جسکی وجہ سے عوام جو انکا واحد ذریعہ آمدن تھا حکومت کے خلاف ہوگئے اور علاقے میںحالات بے قابو ہوگئے اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ شروع ہوا۔ اور اسی طرح پورے گدون میں پوست فصل پر کاشت پابندی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔حالات کی حساسیت کو بھانپتے ہوئے 1984 میں امریکہ کی امداد رساں ایجنسی یو ایس ایڈ نے پوست کاشت متبادل کے لئے اس علاقے کے لئے 320 ملین پیکیج کا اعلان کیا۔بعد میں اس فنڈ اور امداد میں مزید اضافہ کیا گیا مگر اسکے باوجود بھی علاقے کے عوام مسائل کم ہونے میں کوئی خا ص پیش رفت نہیں
ہوئی۔جسکے نتیجے علاقہ معززین اُس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ملاقات کی اور اُنہوں نے وزیر اعظم سے اس علاقے میں ایک صنعتی علاقے کے قیام کا مطالبہ کیا۔وزیر جونیجو نے علاقہ معززین کے مطالبات مان لئے اور 114 ایکڑ رقبے پر ایک صنعتی یونٹ لگانے کا اعلان کیا تاکہ اس سے علاقے میں بے روزگاری پر قابو پایا جاسکے۔ اس منصوبے کے مطابق گدون آمازئی میں 400 کے قریب صنعتی یونٹ لگائے جائیں گے۔ علاوہ ازیں تعلیمی ادارے ، آمد و رفت کے ذرائع صحت کے مراکز ، پینے کے صاف پانی ، بغیر کسی تعطل کے بجلی اور گیس کی ترسیل جاری رہے گی اور ساتھ ساتھ سیوریج لائن بچھائی جائیں گی۔ جب پاکستان پیپلز پا رٹی کے آفتاب احمد خان شیر پائو وزیر بن گئے تو انہوں نے صنعت کاروں کو صرف 3 فی صد شرح سود پر صنعتوں کے لگانے کے لئے فنڈز دینے شروع کئے ۔ ساتھ ساتھ خام مال اور مشینری پر سارے ٹیکس معاف کر دئے ۔ گیس اور بجلی پر 50فی صد چھو ٹ کی رعایت دی گئی۔اور اس علاقے کو 10 سال کے لئے کسی قسم کے ٹیکس سے چھوٹ والا انڈسٹریل زون قرار دیا گیا۔اور یہی وجہ ہے کہ تھوڑے عرصے میں اس علاقے میں 80 صنعتی یونٹ تیزی سے لگائے گئے۔مگر بد قسمتی سے 1990 میں اُس وقت اس علاقے کی صنعتی ترقی کی رفتاررُک گئی جب اُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گدون آمازئی کو دی گئی سارے مراعات پیکیجز اور گرانٹس واپس لے لی ۔اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار یہاں سے بھاگنے اور صنعتی یونٹس دوسرے علاقوں میں شفٹ کرنے لگے۔سرحد ڈویلپمنٹ اتھا رٹی کے مطابق گدون اما زئی میں ٹوٹل کا ر خانوں کی تعداد 321ہے جس میں زیادہ تر بند ہیں اگر حکومت واقعی اس علاقے سے چرس افیون اور آئس جیسے موذی اشیاء کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں تو اُنکو چاہئے کہ وہ صوابی جیسے گنجان آباد ضلع جسکی آبادی 23 اور 25لاکھ کے قریب ہے اس میں گدون آمازئی جیسے صنعتی علاقے کو دوبارہ بحال کر دیں وگرنہ ضلع صوابی میں بے روز گاری کی وجہ سے نوجوان آئس ، چرس اور ہیروئن کے پھر شکار ہونگے۔ موجودہ حکومت اور ضلع صوابی کے مشران کو چاہئے کہ اسکے لئے اقدامات کریں اور اسکے لئے یک قالب اور جان ہوجائیں۔ اس وقت ضلع صوابی خیبر پختون خوا میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ یہاں روز گار کے مناسب مواقع نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان فر سٹیشن اور افراتفری کا شکار ہیں ۔اگر موجودہ حکومت نے ہوش کے نا خن نہ لئے تو حالات حکومت اور علاقہ معززین کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اگر ہمارا صوبہ پاکستان کو6500 میگا واٹ بجلی ، 110ارب روپے کی ٹوبیکو سس،گیس کے کل ذخائر19ٹریلین فٹ اور تیل کے کل ذخائر 600 ملین بیرل پیدا کر سکتا ہے تو حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طر ح خیبر پختون خوا اور گدون آمازئی جیسے پسماندہ ضلعوں کو ترقی دیں۔ تاکہ اس علاقے سے دہشت گر دی ، بے روز گاری، منشیات اور دوسرے جرائم پر قابو پایا جائے۔کیونکہ پاکستان صرف پنجاب کا نام نہیں بلکہ اس میں اور بھی فیڈریٹنگ یونٹ ہیں جسکو ترقی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گجرات اور گوجرانوالہ کی طرح خیبر پختون خوا میں صنعتی یونٹ لگانے چاہئے تاکہ خیبر پختون خوا کا پسماندہ صوبہ اور خاص کر صوابی اور گدون بھی ترقی کرلیں۔ میں اس کالم کے وساطت سے وزیر اعظم شہباز شریف سے استد عا کرتا ہوں کہ وہ گدون آمازئی کے صنعتی علاقے کو وہ مراعات دوبارہ دیں جوسا بق وزیر اعظم مر حوم محمد خان جو نیجو نے دی تھیں۔