خدارا، سیاسی لڑائی میں  سسٹم کو نقصان نہ پہنچائیں 

حکومتی اتحاد اور اس کی مخالف سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے درمیان جاری سیاسی کشمکش اور چپقلش میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک ہی رویہ مسلسل میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہ ”اپنی خو نہ چھوڑیںگے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ گویا اہلِ سیاست میں اصلاحِ احوال کی کوئی فکر کوئی احساس نہیں ہے۔ ملک کا فہمیدہ اور سنجیدہ طبقہ اور محب وطن دانشور حکومت اور اس کے مخالفین کو مسلسل یہ حقیقت باور کروائے جا رہے ہیں کہ وہ اختلافات کو ایک حد تک رکھیں اس میں دشمنی کا رنگ نہ آنے دیں لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری رویوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ انہیں اب غیر جمہوری نظام ہی میں آسودگی میسر آتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کی عسکری اداروں کے خلاف قابلِ اعتراض تقریر کے بعد مقدمہ بازی اور ا س کی روشنی میں گرفتاری نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور ان کی جماعت کے دیگر قائدین عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی قانونی طور پر تیاری کرنے کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں عوامی اجتماعات میں اپنے کارکنوں کو گمراہ کرنے اور اداروں کیخلاف اکسانے میں مصروف ہیں۔ دو روز قبل عمران خان کے خلاف پرچہ درج کیے جانے کے بعد ان کی ممکنہ گرفتاری عوامی اور سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہی لیکن عمران خان خود بھی تفتیشی افسران اور متعلقہ حکام کو غیر قانونی طور پر دھمکیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ حکومتی رٹ کو بھی کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے ببانگِ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ ”میں بنی گالہ میں ہوں، جس نے پکڑنا ہے، آ جائے“ یہ اندازِ تخاطب کسی طور پر بھی مہذب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب ان کے اس غیر قانونی اور غیر شائستہ رویے کی بنا پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا جارحانہ انداز ریاستی اتھارٹی اوراسلام آباد ہائیکورٹ کا قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہے جس سے نہ صرف سسٹم کو نقصان ہو گا بلکہ خود ان کے اپنے مفاد میں بھی نہ ہو گا۔ سو حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر سیاسی جنگ لڑی جائے اور حالات کو اس نہج تک نہ لے جایا جائے کہ خدانخواستہ سسٹم ہی لپیٹ میں آجائے اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...