ارشادنامہ قانون دانوں اور دانشوروں کی نظر میں

مغل بادشاہ بابر کی ایک شاندار حکایت بتاتے ہیں کہ بادشاہ کے دربار میں ایک شخص کو لایا گیا جو سوئی کو زمین میں گاڑھ کر ڈیڑھ دو گز کے فاصلے سے دوسری سوئی پھینکتا جو پہلی سوئی کے ناکے میں جاکر پھنستی۔ بادشاہ اس کا فن دیکھ کر بڑا متاثر ہوا اور اسے پہلے انعام و اکرام دیا اور پھر کوڑے لگوائے۔ بادشاہ بولا اتنی مہارت تم نے پیدا کرلی ہے اس کا تمہیں انعام دیا گیا لیکن اتنی فضول چیز میں مہارت پیدا کی جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ ایسی فضول اور بیکار چیزوں میں مہارت حاصل کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں اسی لئے تمہیں کوڑے مارے گئے ہیں‘‘۔ یہ حکایت پڑھ کر میں نے سوچا آج کل تو اس سے بھی زیادہ عجیب مقابلے چل رہے ہیں۔ ماتھے سے ٹکریں مار کر چند منٹ میں میز پرپڑے سینکڑوں اخروٹ توڑنے ‘ سب سے بڑا کیک بنانے‘ مونچھوں سے ٹریکٹر اٹھانے حتٰی کہ لمبی لمبی ڈینگیں مارنے کے مقابلے! کیا بہتر نہیں کہ اس کی بجائے علم کے حصول اور شخصیت سازی کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ہماری نئی نسل سے جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگ نکلیں جن کا آئیڈیل ڈورے مون یا موٹو پتلو نہیں بلکہ نبی اکرمﷺ‘ قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسی شخصیات تھیں جن سے محبت کے باعث ان کا یقین‘ اعتماد اور ایمان مضبوط ہوا اور وہ کامیابی کی منازل طے کرتے چلے گئے‘‘۔
ارشاد بھٹی لکھتے ہیں ’’چنددن لاہور میں بھائی کی فرنیچر کی دکان میں بیٹھے‘ مگر کچھ بننا چاہتے تھے‘ لہٰذا بھائی کی دکان پر جانا بند کرکے مسلم ماڈل اسکول میں داخلہ لے لیا۔ معاشی حالات خراب‘ اسکول چھوڑنے کی نوبت آگئی لیکن ڈاکٹر محبوب الحق کے والد عبدالعزیز شیخ نے فیس معاف کی‘ مفت کتابیں‘ کاپیاں‘ یونیفارم دیا تو تعلیم جاری رکھ پائے۔ بل نہ دینے کی وجہ سے گھر کی بجلی کٹی تو سرکاری روشنی میںپڑھائی کی۔ کھانے پینے کا مسئلہ ہوا تو چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردی۔ یہی نہیں ٹیوشن کے ساتھ ساتھ لاہور مال روڈ پر مصنوعی ٹانگیں و دیگر اعضاء لگانے والی دکان پر ملازمت کرلیا۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام بھی کئے۔  ’’ارشاد نامہ‘‘ پڑھ کر پتہ چلا کہ جونیجو پارلیمنٹ نے آٹھویں ترمیم منظور کی‘ مطلب 58ٹو بی کے تحت صدر مملکت کو حکومت گھر بھجوانے کا اختیار دیا۔ یہی کتاب پڑھ کر پتہ چلا کہ اچھے موڈ میں جالندھری پنجابی بولنے والے ضیاء الحق کو جب کسی پر غصہ آتا تو وہ زوردار قہقہہ مارتے اور بات دل میں رکھ لیتے۔ اگر انہیں فون کرکے ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا تو پہلے السلام علیکم کہتے‘ مزاج پوچھتے‘پھر کلاس لیتے۔ سیکریٹریوں کو رخصت کرنے کارپورچ تک آتے۔ وہ شریف الدین پیرزادہ کو استاد کہتے۔ اسی کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ بظاہر دھان پان سے نرم لہجے والے محمد خان جونیجو ایسے دلبر نکلے کہ ’’مارشل لاء اور پارلیمنٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ والا بیان دے دیا۔ آپ جسٹس ارشاد حسن خان کے پرویز مشرف کو 3سال دینے پر اعتراض کرسکتے ہیں‘ جسٹس سعید الزماں صدیقی کے انکار کے بعد ان کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پراعتراض کرسکتے ہیں‘ ان کی منطق کو ردکرسکتے ہیں کہ میں نے پی سی او کے تحت حلف آزاد عدلیہ‘ فوج کو بیرکوں میں بھجوانے اور جمہوریت بچانے کے لئے لیا مگر یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ قدم قدم پرفضل خدا اور ایک یتیم سائیکل سوار کی محنت‘ قابلیت کے قائل ہوجائیں گے۔‘‘
ارشاداحمد عارف لکھتے ہیں کہ ’’صدر رفیق تارڑ مجھ سے چیف جسٹس کا حلف لینے لگے تو کہا‘ ارشاد!اﷲ کی شان دیکھو کہ مجھے آپ سے حلف لینا پڑ رہا ہے۔(مطلب یہ کہ میرا بس چلتا تو میں آپ کو پاکستان کا چیف جسٹس نہ بننے دیتا)۔ان ریمارکس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میرے اور ان کے مابین کیسے تعلقات تھے۔ میرے ان کے درمیان کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ ہمیشہ آپس میں ’’لگتی ‘‘ رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہنا سچ کے قتل کے مترادف ہوگا کہ وہ بریف کیس لیکر کوئٹہ گئے تھے۔ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ میں کوئٹہ بنچ کی سربراہی ضرور کر رہا تھا لیکن میرے ساتھ خلیل الرحمان اور ناصر اسلم زاہد بھی تھے۔ یہ دونوں جج صاحبان بھی اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ دونوں حضرات میرے زیر اثرنہیں تھے۔ یہ کوئٹہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا نہ کہ صرف میرا۔ یہ ایک عبوری فیصلہ تھا‘ بعدمیں سپریم کورٹ کے ایک اور لارجر بنچ نے جناب سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں اس فیصلے پر مہر تصدیق بھی ثبت کردی تھی۔‘‘
(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن