وفاق میں متوازن نگران حکومت

وفاقی نگران حکومت میں بیشتر چہرے نئے ہیں ،نگران وزیر اعظم اگرچہ سینیٹ کے رکن تھے اور ان کی بعض تقریریں بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بہت کم لوگ ان سے شناساں ہیں ۔ان کا پیشہ ورانہ پس منظر ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک قابل اور با صلاحیت ٹیکنو کریٹ ہیں ۔پوری وفاقی کابینہ ٹیکنو کریٹ سے بھری ہوئی ہے ،کوئی معروف سیاست دان اس میں شامل نہیں کیا گیا ۔اختر مینگل نے نگران وزیر اعظم پر اعتراض اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی بات میں کوئی وزن نہیں اور نہ کسی نے ان کے اعتراض پر کان دھرے ہیں ،اسے زیادہ سے زیادہ ذاتی مخالفت قرار دیا جا سکتا ہے ۔میں ذاتی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں وہ پیشہ ورانہ سطح پر اپنے کیریئر کے عروج میں ہیںاور اب انہیں اپنے تجربے سے ملک اور اس کے عوام کو فائدہ پہنچانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے ۔سب سے پہلے تو وزیر اطلاعات جناب مرتضیٰ سولنگی کا ساری عمر اوڑھنا بچھائونا صحافت کا شعبہ رہا ہے ۔وہ تجربہ کار اور زیرک میڈیا پرسن ہیں ،ریڈیو پاکستان ان کی سربراہی میں چلتا رہا ،وہ بے لاگ تجزیہ لکھنے والوں میں شامل ہیںاس لیے وزارت اطلاعات ان کے لیے کوئی نیا شعبہ نہیں ہے ،یہ ان کے گھر کی بات ہے ۔وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر مالیاتی اور اقتصادی نبض کو خوب پہچانتی ہیں ،وہ تجربے کی دولت سے مالامال ہیں ۔وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی برس ہا برس تک مختلف حیثیتوں میں فارن آفس کے امور چلاتے رہے اس لیے ان پر کوئی انگلی اٹھانہیں سکتا ۔ڈاکٹر عمر سیف کو آئی ٹی کی وزارت دی گئی ہے ،اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حق بحق دار رسید ۔وہ آئی ٹی کے شعبے میں اپنی مہارتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں ۔پنجاب آئی ٹی بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے جو کمالات دکھائے ان پر انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔آئی ٹی بلاشبہ جدید دور کا جادو ہے اور ڈاکٹر عمر سیف ایک ماہر جادو گر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور ان کالموں میں کئی مرتبہ ان کو داد پیش کر چکا ہوں۔ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے مشرف دور میں بلا شبہ تعلیم کے شعبے کو باہم عروج تک پہنچایا ۔اب ڈاکٹر عمر سیف ان کے نعم البدل کے طور پر آئی ٹی کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکیں گے ۔ڈاکٹر عمر سیف سے جتنی بھی امیدیں وابستہ کی جائیں وہ بہت کم ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کمال کی ذہانت عطا کی ہے ،کہا جاتا ہے کہ دیگ کے چند دانے چکھ کر اس کے ذائقے کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔میں نے جن چند شخصیتوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں نئے لب و لہجے کے شاعر سید وصی شاہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اندازہ آسانی سے لگا یا جا سکتاہے کہ جس کسی نے وفاقی کابینہ کے ارکان کا انتخاب کیا ہے اس نے صحیح معنو ں میں ایک خوشبو دار حسین اور جانب نظر گلدستہ قوم کی نذرکیا ہے ۔
نگران حکومت آ تو گئی ہے مگر یہ جائے گی کب اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ویسے تو نگران حکومت کے سامنے بڑا مختصر ایجنڈہ ہوتا ہے ،اسے روز مرہ کے امور نمٹانے ہوتے ہیں اور آئینی مدت کے اندر اندر الیکشن کروا کر رخصت ہونا پڑتا ہے لیکن موجود نگران حکومت کے سامنے ایک پیچیدہ بھاری بھرکم اور اہم ترین ایجنڈا ہے جو اسے ورثے میں ملا ہے ۔معاشی طور پر ملک کے حالات دگر گوں ہیں ،مہنگائی کا عفریت پھنکار رہا ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر لرزہ بر اندام ہے ۔بجلی اور پٹرول کی قیمتوں نے معاشرے کے ہر طبقے کو پریشان کر رکھا ہے ۔شہباز حکومت نے بڑی مشکل سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ۔آئی ایم ایف نے ناک رگڑوا کر ایک معاہدہ تو کر لیا لیکن اب اس معاہدے کو سرے چڑھانا ،پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہے ۔معاہدے کی شرائط نے ملکی معیشت کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ نئے طلوع ہونے والے دن کس قدر معاشی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ۔یہ ہے وہ پہلا چیلنج جو نگران حکومت کو درپیش ہے ۔دوسرا سنگین چیلنج نو مئی کے سانحے کی صورت میں شیش ناگ کی طرح پھن لہرا رہا ہے ۔عمران حکومت اور ان کی جماعت نے معاشرے میں دراڑیں ڈال دی ہیں ۔اداروں کو برباد کر دیا ہے اور خاص طور پر فوج کے اند ر ڈسپلن خراب کرنے کی کوشش کی ہمارا ازلی دشمن بھارت بغلیں بجا بجا کر کہہ رہا ہے کہ وہ کام وہ پچھتر برس میں کھربوں روپے خرچ کرنے کے بعد نہ کرسکا اسے عمران نے راتوں رات کر دیا ۔بہر حال اب یہ لوگ احتساب کی ضد میں ہیں اور قانون ان کے خلاف حرکت میں آ چکا ہے ۔اس احتساب کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔مگر یہ بات طے ہے کہ نگران حکومت کو اس فریضے کی تکمیل کرنا ہوگی ۔
شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو بھی سیلاب کی آفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ،اب نگران حکومت بھی اسی جنجال میںگرفتار ہے ۔بلوچستال اور شمالی علاقوں میں طوفانی بارشوں نے قیامت برپا کر دی ہے ۔بھارت نے شیطانی حرکت کرتے ہوئے راوی اور ستلج میں پانی چھوڑ دیا ہے جس سے پاکستان کی سر حدی پٹی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔بھارت میں ہیڈ ورکس کے ناکارہ ہونے کے باعث مشرقی پنجاب کے وسیع علاقے زیر آب آئے ہیں تو ساتھ ہی پاکستانی پنجاب سیلابی تھپیڑوں کی ضد میں ہے ۔میرے علاقے گنڈا سنگھ والا سے لے کر ہیڈ سلیمانکی تک سینکڑوں آبادیوںا ور ہزاروں ایکڑ رقبہ سیلاب نے تباہ کر دیا ہے اور ابھی اس پانی نے ہیڈ سلیمانکی سے گزر کر نیچے بھی بہت تباہی مچانی ہے ۔یہ وقت دعا بھی ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے سیلابی آزمائش سے ہمیں محفوظ رکھے ۔نگران حکومت کے لیے بہر حال یہ ایک ناگہانی چیلنج سامنے آیا ہے جس سے اسے عہدہ برآ ہونا ہے ۔ابھی تو ملک گزشتہ برس کے سیلابی نقصانات کا ازالہ نہیں کر سکا ۔دنیا نے مالی اعانت کے بڑے بڑے وعدے تو کیے۔ان سے پیسہ اکٹھا کرنا بھی نگران حکومت کا عملی فریضہ ہے اور نئے سیلابی نقصانات کے ازالے کے لیے بھی نگران حکومت کو ترقی یافتہ ممالک سے امداد کی اپیل کرنا ہوگی ۔
نگران حکومت کا واحد آئینی فریضہ الیکشن کا انعقاد کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے، نو من تیل ہو گا تو رادھا ناچ سکے گی ۔الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں بھی کرنی ہیں اس کے لیے وہ بھی مزید وقت مانگ رہاہے ۔اوپر سے معاشی مشکلات ، آئی ایم ایف کا ایجنڈہ اور ڈنڈا ،سانحہ نو مئی مجرموں کا کڑا احتساب اس پس منظر میں نگران حکومت کسی سو میٹر کی دور میں شامل نہیں ہے بلکہ اسے مسائل کے ایک میرا تھون کا سامنا ہے ۔میں جب وفاقی کابینہ کے چہروں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ امید سے روشن نظر آتے ہیں اور اس سے مجھے بھی امید پیدا ہوتی ہے کہ نگران حکومت بڑی آسانی سے تمام مشکلات اور مسائل سے کامیابی کے ساتھ عہدا براء ہو جائے گی۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن