مرشدی خورشید احمد، الوداع!

خورشید احمد، یہ ویسے تو ایک عام سا نام ہے جو اس ملک میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد کا ہوگا لیکن ذاتی حیثیت میں میرے لیے اس نام کے ساتھ جو حوالہ جڑا ہوا ہے وہ ایک ایسی شخصیت کا ہے جو کئی اعتبار سے اتنی منفرد تھی کہ اس جیسا کوئی دوسرا ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے۔ پرانے لاہور یا اندرون شہر کے بہت سے لوگ انھیں خورشید صاحب یا بھا خورشید کے نام سے جانتے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو دراز قد کے سوا بظاہر ان میں کوئی خصوصیت دکھائی نہ دی لیکن جوں جوں ان کی قربت میں وقت گزرتا گیا توں توں اندازہ ہوتا گیا کہ ان کی ذات ایک مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کیوں کھینچتی ہے۔ لوگوں کی بھلائی اور ان سے ہمدردی کا جذبہ قدرت نے ان کے دل میں کچھ اس طرح بھردیا تھا کہ وہ سراپا خلوص اور ایثار بن گئے تھے، اور یہ کوئی جاروبی بیان نہیں بلکہ ان کے ساتھ بلاناغہ گزارے گئے تین برس کے شب و روز میں ہونے والے مشاہدے اور ذاتی تجربے کا نچوڑ ہے۔
میری جب خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی اس وقت میں گیارھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ان دنوں میں جن سماجی حالات کے تابع زندگی گزار رہا تھا وہ مجھے بہت زیادہ مہلت بھی دیتے تو میں شاید گریجوایشن کر کے کسی سرکاری دفتر میں کلرک بھرتی ہو جاتا یا کوئی اور ایسی ملازمت اختیار کرلیتا جو مجھے روٹی روزی کے حصول کے لیے کولہو کا بیل بنا کر رکھ دیتی۔ لیکن خورشید صاحب میرے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئے اور ان کی معیت میں گزارے گئے وقت نے میرے اندر علم و دانش کے لیے ایسی محبت اور لگن پیدا کردی کہ اس شہر کے بڑے اور اہم تعلیمی اداروں میں مختلف مدارج طے کرتا ہوا میں اس ڈگری کے حصول میں کامیاب ہوا جو رسمی تعلیم میں آخری درجہ مانی جاتی ہے۔ اسی طرح روزگار کے حوالے سے دیکھا جائے تو میں نے اپنے لیے اس پیشے کا انتخاب کیا جسے دنیا بھر میں صدیوں سے بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔
تعلیم کے مختلف مراحل کے دوران مجھے جو بڑے بڑے اعزازات حاصل ہوئے گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور کے مجلے ’راوی‘ کا مدیر ہونا ان میں سب سے اہم ہے، اور یہ کتنا بڑا اعزاز ہے یہ ’راوینز‘ ہی جاتے ہیں۔ اس اعزاز کا سہرا اگر میں کسی ایک شخص کے سر باندھ سکوں تو وہ خورشید صاحب ہیں کیونکہ میں شاید ’راوی‘ کا واحد مدیر ہوں جس نے ہائی سکول کے درجے تک گورنمنٹ کالج لاہور کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف اس حرفِ آخر میں بھی موجود ہے جو ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصہ پہلے ’راوی‘ میں شائع ہوا۔ میں نے خورشید صاحب کی صحبت میں گزارے گئے دنوں میں گورنمنٹ کالج کا ذکر اتنی بار سنا کہ پہلے تو وہاں داخلہ لینے کی خواہش دل میں ایک کونپل کی طرح پھوٹی اور پھر وہ بڑھتے بڑھتے ایک تناور پیڑ کا روپ دھار گئی۔ کونپل سے پیڑ بننے تک کے عمل میں اس پودے کی آبیاری بھی خورشید صاحب ہی کے ذمے رہی جنھوں نے ہمیشہ میری خوب حوصلہ افزائی کی۔
وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وثیقہ نویس تھے اور اس کام کے ساتھ وابستہ شاید ہی کوئی اور شخص اپنے پیشے کے ساتھ اتنا مخلص ہوگا جتنا خورشید صاحب تھے۔ وہ اکثر قرآن مجید کی سورۃ بقرہ کا حوالہ دے کر یہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے مابین ہونے والے معاہدے لکھنا کوئی عام یا آسان کام نہیں ہے، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں کیا ہے۔ مذکورہ پیشے سے منسلک لوگوں کی اکثریت کے برعکس خورشید صاحب پیسے دھیلے کی طلب سے بے نیاز تھے اور اتنا بے نیاز تھے کہ بہت سے لوگوں کے کام کر کے وہ ان سے معاوضہ نہیں لیا کرتے تھے، اور کام سے ان کی قلبی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ ہر معاہدے کو بہت غور و خوض کے بعد تحریر کیا کرتے تھے تاکہ فریقین میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے اور نہ ہی وہ کسی مرحلے پر یہ گلہ کرسکیں کہ لکھنے والے نے ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ناانصافی کی ہے۔
میری جب ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں تو میں نے دیکھا کہ تحصیل بازار میں واقع وہ چھوٹی سی دکان جس میں خورشید صاحب کا دفتر تھا مرجعِ خلائق تھی۔ کچھ لوگ تو وہاں اپنے معاملات و مسائل سے متعلق مشورے لینے یا معاہدے وغیرہ لکھوانے کے لیے آتے تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو صرف خورشید صاحب کی باتیں سننے کے لیے روز حاضری دیتے تھے۔ ان لوگوں میں خاص و عام یکساں طور پر شریک تھے اور خورشید صاحب کے لیے ان کی محبت اور عقیدت دیدنی ہوتی تھی۔ یہ اپنی طرز کا ایک انوکھا دفتر تھا جس میں کوئی کرسی یا میز نہیں تھا بلکہ ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ کوئی بڑے سے بڑا مالدار بھی آئے تو اسے وہیں قالین پر دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا۔ خورشید صاحب کی کشادہ دستی کی بدولت اس دفتر میں کھانے پینے کی اشیاء اس کثرت سے آتی تھیں کہ ایک تانتا بندھا رہتا تھا۔
قدرت نے انھیں صرف کشادہ دست ہی نہیں بنایا تھا بلکہ علم و ادب سے ایسا لگاؤ بھی ودیعت کیا تھا جو بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے 1960ء کی دہائی میں ایم اے او کالج لاہور سے بی اے کیا تھا جہاں ان دنوں ڈاکٹر دلاور حسین جیسی مثالی شخصیت سربراہِ ادارہ کی حیثیت میں موجود تھی۔ رسمی طور پر تو ان کی تعلیم اتنی ہی تھی لیکن وہ اپنی ذات میں ایک دائرۂ معارف یا انسائیکلوپیڈیا تھے اور ان سے ملنے والے ان کی یادداشت اور معلومات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جس بھی محفل میں ہوتے تھے وہاں چھائے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور باقی سب ان کی باتیں سن رہے ہوتے تھے جو اتنی دلچسپ ہوتی تھیں کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا، اور سامعین صرف عام یا اوسط درجے کے پڑھے لکھے افراد ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ کئی بار تو تدریس و تحقیق کے شہ سوار بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے ہوئے نظر آتے تھے۔
بہت سے اور لوگوں کی طرح میرے لیے بھی خورشید صاحب صحیح معنوں میں ایک مرشد تھے جس نے زندگی کے کٹھن مراحل میں اپنی یاوری اور رہبری سے سہولت پیدا کی۔ چند روز قبل ان کے دارِ بقاء کی جانب سفر سے ہم سب لوگوں کے لیے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جو کبھی بھی پُر نہیں ہوسکتا لیکن ہم سب کی یادوں میں وہ ایک ایسے چراغ کی طرح ہمیشہ روشن رہیں گے جس کی لو کبھی مدھم نہیں ہوتی، اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد موجود لوگوں میں محبتیں اور آسانیاں بانٹنے کے لیے اپنے آرام و سکون کو تج کر اس حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے جہاں شاید کوئی خود بھی اپنے لیے نہیں جاتا۔ وہ زندگی بھر اپنے نام کی طرح روشنی اور امید کا ایک ایسا مرکز بن کر رہے جس سے دائماً دوسروں کو فائدہ ہی پہنچا۔ مرحوم کے ایک معنی رحمت یافتہ کے بھی ہیں اور میں خورشید صاحب کو ہمیشہ انھی معنی میں مرحوم تصور کروں گا۔ الوداع مرشدی!

ای پیپر دی نیشن