صدر مملکت کا خلیفہ وضاحت اور اپنے سیکرٹری سے معاملہ تھما نہیں

ندیم بسرا
ملک میں سیاسی، عدالتی خبروںمیں ایک بار پھر تیزی آناشروع ہو گئی ہے۔کہیں توشہ خانہ کیس ،کہیں ایوان صدر سے اٹھنے والی آوازیں اور کہیں انتخابات کی تاریخ پر خاموشی اور کہیں سچ نہ بولنے پر نامزد چیف جسٹس کا افسوس کرنا شامل ہے۔صدر مملکت کی جانب سے حلفیہ باتوں نے نیاپنڈورا باکس کھل گیا ہے حال ہی میں صدر مملکت کی جانب سے بلوں کو دستخط کئے بغیر واپس کرنے سے ایک نیا ایشو سامنے آرہاہے۔ساتھ صدر مملکت کا اپنے سیکرٹری پر عدم اعتماد کرنا اس معاملے کو مزید طول دے گیا ہے اسی بنا پر اس کی تپش ہر جگہ محسوس کی جارہی ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیلئے مشاورت کی دعوت بھی دے دی ہے۔ڈاکٹر عارف علوی کے دو واپس بجھوائے جانے والے بلوں پر حلف دینے کی باتیں ابھی تھمی نہیں تھیں کہ انہوں نے الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے بلا لیا۔صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط میں آئینی تقاضے کا حوالہ دیا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات ضروری ہیں۔ خط میں کہا ہے کہ وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی 9 اگست 2023 کو تحلیل کردی تھی۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کا پابند ہے جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ جب صدر، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور اس کا شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 یا 224 اے کے مطابق نگران کابینہ تشکیل دی جائے گی۔چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت نے کہا کہ لہٰذا مناسب تاریخ طے کرنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے ملاقات کی دعوت دی جاتی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین کی سزا پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ بادی النظرمیں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جو درست نہیں تھا اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت کی۔وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ ٹرائل کورٹ نے 3سے4 مرتبہ کیس میں وقفہ کیالیکن ملزم کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا، پھر سیشن کورٹ نے فیصلہ کردیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹرائل کرنے میں اتنی جلدی کیا تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو گواہان پیش کرنے کیلئے وقت نہیں دیا گیا، بادی النظرمیں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جو درست نہیں تھا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بادی النظر میں خامیاں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی اس معاملے میں مداخلت نہیں کررہے، کل ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں، ہم پرسوں کیس سنیں گے۔عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔واضح رہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔اب یہاں یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت اس پر کیا فیصلہ دیتی ہے اگرفیصلہ سیشن جج کے فیصلے کے برعکس آیا تو اس پر کیا سے کیا مباحثے شروع ہوجائئیں گے اس کی توقع فی الحال نہیں کی جاسکتی۔لہذا نگران حکومت کے لئے یہ بھی اہم مسئلہ ہوگا کہ وہ اس فیصلے پر کیا کریں گے اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو کیا ہوگا ؟۔اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک تقریب میں کہا کہ صحافیوں اور ججز سمیت ہر انسان کے لیے یہی پیغام ہے کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دیںصرف ٹی وی پر آجانے سے کوئی صحافی نہیں بن جاتا ،ان کاکہنا تھا کہ آئین کے مطابق معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، ذمہ دارانہ صحافت وقت کی اہم ضرورت ہے، میڈیا کا بنیادی کام درست معلومات لوگوں تک پہنچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافی اس لیے معلومات اکٹھی کرتے ہیں تاکہ آگے لوگوں تک پہنچا سکیں، اس میں کچھ اچھی باتیں سامنے آتی ہیں اور کچھ بری، بری باتیں سامنے آنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے یہ باتیں رک جاتی ہیں، اچھے باتیں سامنے آتی ہیں تو دوسروں کو اچھائی کی جانب بڑھنے کے لیے راغب کرتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ججز کا کام صحافیوں سے مختلف نہیں ہے، ہم دونوں سچ کی تلاش میں نکلتے ہیں، جج آئین و قانون کے دائرہ کے تحت چلتا ہے، انصاف کے حوالے سے لوگوں کی مختلف رائے ہوتی ہے لیکن سچ سچ ہی رہتا ہے، رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے سچ سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صرف کیمرا اٹھا لینے سے یا ٹی وی پر آجانے سے کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی وہ ہوتا ہے جو تحقیق کرتا ہے، قرآن مجید اور اس سے پہلے کی مقدس کتابوں میں بھی سچ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن