وزیراعلیٰ کو وزارت تعلیم کیلئے محض پنجاب سے وزیر مل سکا

فیصل اویس بٹ
بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ہو گیا۔ ڈومکی نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا۔ روایتی طورپر یہ تاج بلوچ سیاستدان کے سر پر رکھا گیا۔ نئے وزیراعلیٰ اپنے علاقے ٹہری ادریس میں بلدیاتی سطح پر ناظم کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ ان کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے۔ اب ان کے سامنے سب سے اہم کام صوبے میں وزرائ￿ اور مشیروں کی تقرری کا ہے جس میں انہوں نے غالباً تمام تر احتیاط سے کام لیتے ہوئے فی الحال صرف 5 رکنی کابینہ تشکیل دی ہے  انہیں صوبے کی تمام سیاسی قوتوں کو جن میں بلوچ‘ پٹھان‘ پنجابی سیٹلرز اور ہزارہ کمیونٹی شامل کو اپنے ساتھ ملا کر کام کرنا ہوگا جو بہت حوصلہ طلب کام ہے۔ پھونک پھونک قدم رکھنا ہوتا ہے کہ کوئی ناراض نہ ہو۔ دہشت گردی اور مذہبی و سیاسی عسکریت پسندی کا شکار یہ صوبہ افغانستان اور ایران بارڈر سے مسلسل دباؤ میں رہتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلا کام امن و امان کی حالت پر کڑی نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ محرومیوں کا شکار یہ صوبہ تعلیم‘ صحت‘ آب و درخت اور آب نوشی جیسے گھمبیر مسائل کا شکار ہے۔ بجلی اور گیس کی فراہمی تو بعد کی بات ہے۔
بدقسمتی سے جو بھی حکمران آئے‘ انہوں نے اپنی تجوریاں تو خوب بھر لیں مگر ترقیاتی کاموں کی مد میں ملنے والی اربوں روپے سے زیادہ کی وفاق سے ملنے والی رقم بھی ہر دور حکومت میں شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے رہے اور غریب عوام کی حالت آج بھی وہی ہے۔ بقول جالب ’’دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے‘‘ اطلاعات کے مطابق سابقہ پانچ برسوں میں بھی بلوچستان کے ایم پی ایز‘ ایم این ایز کو ساڑھے سات ارب روپے ترقیاتی فنڈز ملے‘ وہ کہاں گئے۔ کسی کو معلوم نہیں‘ کسی نے اس کی ہوا بھی عوام کو نہ لگنے دی۔ اس سے آپ بلوچستان میں بدنظمی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اوپر سے سرکاری ملازمتوں کی بندربانٹ کا رونا رویا جا رہا ہے۔ ہزاروں آرڈر رکے ہوئے ہیں، خاص طورپر محکمہ تعلیم کا تو حال ہی بْرا ہے۔ اوپر سے ایک دوسرے صوبے یعنی پنجاب سے تعلق رکھنے والے قادر بخش بزدار بلوچستان کا وزیرتعلیم نجانے کس لئے بنا دیا گیا ہے جس سے نیا طوفان اٹھے گا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ پنجاب کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ آخر ضرورت ہی کیا تھی ایسا کرنے کی۔ اس مسئلے پر بلوچ اور پٹھان یک زبان ہیں۔ قوم پرست الگ اپنا راگ بجا رہے ہیں۔ اس سے پہلے زیادہ بات بڑھے‘ حکومت بلوچستان کو کوئی قدم اٹھانا ہوگا ورنہ بعد میں خفت اٹھانا پڑے گی۔ صرف بلوچ یا پٹھان ہونا ہی کافی نہیں وزیر کا صوبے سے تعلق ہونا‘ وہاں کا باشندہ ہونا ضروری ہے۔ بلوچ تو لاکھوں کی تعداد میں سندھ اور پنجاب میں ہی نہیں‘ ایران میں بھی آباد ہیں۔
اب دیکھنا ہے باقی وزراء اور مشیروں کی تقرری کرتے وقت وزیراعلیٰ بلوچستان کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ انہیں مقامی آباد پنجابیوں اور ہزار کمیونٹی سے بھی ایک ایک وزیر یا مشیر لینا ہوگا تاکہ حساب برابر رہے۔کوئی زیادتی کا منفی پراپیگنڈا نہ کر سکے۔ کوئٹہ شہر میں اچھے اچھے پڑھے لکھے سیاسی طورپر فعال دونوں برادریوں میں موجود ہیں تو پھر پنجاب کو موردالزام بنانے سے بہتر ہے کہ ان سے ہی لوگ لئے جائیں۔ باقی کابینہ میں بلوچ ہوں یا پٹھان‘ ایسے لوگ لئے جائیں جو مخلص ہوں۔ ایماندار ہوں۔ عوام دوست ہوں۔ صوبے اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کا جذبہ رکھتے ہوں۔ صوبائی انتظامیہ کو ساتھ لیکر یہ نگران کابینہ اچھے کام کر سکتی ہے۔ بیوروکریسی میں لاکھ برائیاں سہی‘ مگر اچھے اچھے انتظامی افسر اس وقت بھی بلوچستان میں کام کر رہے ہیں۔ ان سے مزید فائدہ بہتر انداز میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ بس خلوص نیت کی ضرورت ہے۔نگران حکومت نے اتے ہی غیر جاندار ایماندار پیشہ وارانہ مہارت کے حامل افسران کی تعیناتی کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں حال ہی میں منجھے ہوئے انتہائی اچھی شہرت رکھنے والے تجربہ کار غیر جانبدار افسر سابق چیف سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل کو وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات کردیا گیا ہے انکی تعیناتی سے وزارت داخلہ میں سابق حکومت سے جاری انتقامی کاروائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا عبداللہ خان سنبل کی تعیناتی کے بعد وزارت داخلہ میں میرٹ کا بول بالا ہوگا وہ اپنی نوکری کے آغاز میں بلوچستان میں بھرپور خدمات انجام دے چکے ہیں اس لیے وہ بلوچستان کے کلچر و نظام سے آشنا ہیں انکی انوارالحق کاکٹر وزیراعظم پاکستان وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ورکنگ ریلیشن شپ انتہائی آئیڈیل ہوگی ویسے بھی انوار الحق کاکٹر اور سرفراز بگٹی میں دیرینہ دوستی ہے اور دونوں شخصیات ایک دوسرے کا انتہائی احترام کرتے ہیں ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ جو اس سے قبل آئی جی بلوچستان رہ چکے ہیں بھی وزیر داخلہ  سرفراز بگٹی سے واقفیت رکھتے ہیں گو کہ وہ اسی سال دسمبر میں اپنی مدت ملازت کے اختتام پرکامیابیاں سمیٹتے ہوئے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ مگر پھر بھی وزیر اعظم وزیر داخلہ وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی ورکنگ ریلیشن شپ آئیڈیل ہوگی ۔ میرٹ اور انصاف کا بول بالا ہوگا اور انتظامی امور میںاستحکام سے ملک میں جاری لاقانونیت افراتفری کا خاتمہ ہو گا۔عبداللہ سنبل کے والد حیات اللہ سنبل بھی نہ صرف  منجھے ہوئے بیوروکریٹ تھے بلکہ انکے شفاف اور اعلی کردار غیر جانبداری کی گواہی انکے دشمن بھی دیتے ہیں حیات اللہ خاں سنبل نے اس شرط پر  پنجاب کے چیف سیکرٹری تعینات ہونے سے انکار کردیا تھا نوازشریف کا دور حکومت تھا حیات اللہ سنبل کے مد مقابل افسر کو اسوقت  غلام حیدر وائیں کی اشیرباد حاصل تھی۔  حیات اللہ سنبل کو پیغام دیا گیا اگر اپ اپنی تعیناتی بطور چیف سیکرٹری پنجاب چاہتے ہیں تو وائیں صاحب سے ملکر وفاداری کا وعدہ کرلیں حیات اللہ سنبل نے انکار کرکے بیوروکریسی کی معراج پوسٹنگ کو جوتے کی نوک سے یہ کہہ کر ٹھوکر ماردی کہ یہ تو افسران کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی سیاسی وابستگی عہد و پیماں پر پوسٹنگ لے اور پھر پرویز مسعود چیف سیکرٹری پنجاب تعینات ہوگئے۔ حیات اللہ سنبل کے کئیرئیر  میں بلوچستان انتہائی اہمیت کا حامل رہا وہ اسوقت بلوچستان میں خدمات انجام دینے کو فخر و امتیاز گردانتے تھے جب کوئی سول افسر بلوچستان پوسٹنگ ملنے پر ملازمت چھوڑنے کو ترجیح دیتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن