امیر محمد خان
پاکستان میں ہمیشہ سے جاری کھیل کی حالیہ قسط میں ایک مرتبہ پھر ”نگران“ حکومت کا قیام عمل میں آگیا ہے جو آئینی ضرورت ہے ۔ اس وقت ملک اپنی معیشت کے سنگین دور سے گزررہا ہے اس میں نہ جانے نئے انتخابات کا بوجھ سہنا کیسے ممکن ہوگا ، قرضوں میں جکڑی معیشت کو آئین کی رو سے انتخابات کرانا ضروری ہونگے۔ حالیہ کابینہ میں بقیہ وزراءکی کارکردگی اور ماضی سے تو واقفیت نہیں مگر حالیہ کابینہ میں وزیر اطلاعات کی تقرری قابل ستائش ہے۔ یہ تو نگراں حکومت کے وزیر ہیں جبکہ میرے رائے میں نگراں وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی جیسے افراد کی تقرری پانچ یا چار سال کیلئے قائم ہونے والی حکومت میں ہونا بھی چاہئے جو اپنی فیلڈ میں معروف اور ایماندار ،اور اپنی فیلڈ میں تجربہ کا حامل ہو۔ مرتضی سولنگی نے وزار ت سنبھالتے ہی ایسی باتیں کرنا شروع کردیں ہیں جو مورثی سیاست دانوں کے کانوں میں گراں گزریں گی۔ مرتضی سولنگی ایک تجربہ کار صحافی اور ملک عزیز کا درد رکھتے ہیں۔ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ کابینہ نے ملک میں جاری معاشی صورتحال کے پیش نظر سرکاری اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے یہ کابینہ کا فیصلہ تو ہوسکتا ہے مگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہو تا نظر آنا چاہئے وزیر اطلاعات نے انقلابی بیان بھی دیا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہ کرے۔ ہم پٹرولیم مصنوعات زائد قیمتوں پر خرید کر کم قیمتوں پر فروخت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے حکومت اشیاءپر سبسڈی نہیں دے سکتی۔ غربت اور مہنگائی ایک حقیقت ہیں، حکومت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے اپنے اخراجات میں کمی کرے گی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکومت میں آنے والا ہر فرد اور گروہ یہی کہتا ہے کہ معاشی حالات کے پیش نظر حکومت عوام کو ریلیف سے قاصر ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے آئے روز مہنگائی کے طوفان لا کرعوام پر مزید اقتصادی بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ اگر حکومت معاشی حالات کے پیش نظر اخراجات میں کمی کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے اسے ان مراعات کو ختم کرنا چاہیے جو سرکاری افسران کو بجلی، گیس اور پٹرول کی صورت میں دی جارہی ہیں۔ اس بدترین مہنگائی کے دور میں بیس تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا عام آدمی یہ اخراجات اپنی جیب سے پورے کرنے پر مجبور ہے جس کے لیے ان حالات میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ترین ہو چکا ہے۔ جب عام آدمی بجلی، گیس اور پٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے پورے کر سکتا ہے تو لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے سرکاری افسران کیوں نہیں کر سکتے جب تک سرکاری مراعات کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، نہ اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہے نہ قومی خزانے پر بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات مہنگے پٹرول اور دوسری اشیاءپر سبسڈی نہ دینے کی بات تو حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ پر قومی خزانہ بے دریغ لٹایا جا رہا ہے لیکن جب عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے تو یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے عوام کو سبسڈی نہیں دی جاسکتی۔ کیا معاہدے کی تمام پابندیاں صرف عوام کے لیے ہیں، طاقتور طبقات ان پابندیوں سے مستثنیٰ کیوں ہیں؟مرتضی سولنگی جیسے وزیر جنکی روزی روٹی صرف اور صرف اپنی تنخواہ اور حلال کی کمائی ہے وہ وزیر اعظم کو راضی کریں کہ اشرافیہ کو دینے والی مراعات جو ملک کی معیشت پر بوجھ ہیں اسکی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے
مرتضی سولنگی اپنی صحافتی زندگی میں نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مضبوط آواز بلند کی بلکہ ساتھ ساتھ جب بھی ملک میں آزادی اظہار پر پابندی لگی اسکے خلاف مرتضی سولنگی کی آواز کارکن صحافیوں کے ساتھ ایک مضبوط آواز بنکر ابھری انہوں نے اپنے پروگراموں ، ٹاک شوز میں ہمیشہ دلیل سے با ت کی جسکے وہ ہمیشہ قائل رہے ہیں اختلاف کے نتیجے میٰں وہ کسی بھی قسم کی طاقت کے خلاف رہے ہیں ، مرتضی سولنگی نے اختلاف کو معاشرے کے حسن سے تشبیہ دیتے ہیں ۔
آنے والی حکومت میں ہمیشہ وزیر اطلاعات ایک ورکنگ صحافی کو ہی ہونا چاہئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ چار سال میں جہاں عوام کی سوچ بھی منتشر ہوگئی ہے وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں اسی طرح صحافی بھی ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں 1978ءمیں مجھے اعززا رہا کہ میں آزادی صحافت کی ملک گیر تحریک میں شامل رہا صحافی جیل گئے مگر تقسیم نہیں ہوئے ، اس سے قبل نظریات بنیاد پر دو گروپ ضرور تھے مگر آزادی صحافت کے نام پر مارشل لاءحکومت کے سامنے سب متحد تھے ، کامیاب تحریک کے بعد غیبی طاقتوں نے صحافیوں کے اتحاد پر حملہ کیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے وہ لوگ جنکا کسی تحریک میں کوئی اتا پتہ نہ تھا وہ ”بڑے اور سینئر صحافی و تجزیہ کار“ بن چکے ہی اگر ایک غیر مناسب جملہ ادا کروں تو صحافی برادی معاف کریگی کہ غیر تعلیم یافتہ صحافی سیاسی حکومتوں کا دم چھلہ بن گئے ہیں اورانکے اس عمل سے عوام جو ان سے سیکھنا چاہتے تھے وہ ان سے مایوس ہورہے ہیں۔ وزارت اطلاعات کے منصب پر تجربہ کارصحافی کو ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تاکہ ملک میں تاکہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کی حفاظت ہوسکے حکومت اگر اپنی من مانی کرے تو تجربہ کا صحافی وزیر اطلاعات حکومت میں ایک مضبوط آواز ہو اور حکومت کو من مانی اقدامات سے روک سکے۔اس وقت پاکستان کو دنیا بھر میں اپنا مثبت کردار دکھانے کی اشد ضرورت ہے ایک ایسے وقت میں مرتضی سولنگی کی تقرری ایک خو ش آئند اقدام ہے وہ اپنی وزارت کی کارکردگی سے دنیا میں پاکستان کے خلاف منفی پروپگنڈہ کامقابلہ کرینگے انکے ہمراہ وزات اطلاعات میں ایک محب وطن اور تجرہ کار ٹیم ہے یہ کام وزار خارجہ کا ہے مگر موجودہ دور میں یہ کام میڈیا کا وزارت خارجہ کا طریقہ کار مختلف ہے جبکہ کلچر، ابلاغ کا طریقے کے ذریعے خاص بیرون ملک دنیا کے میڈیا میں اپنی موجودگی کو ممکن بنانا ہے جس میں ہم صفر سے بھی نچلے درجے پر ہیں اور یہ ذمہ داری وزارت اطلاعات کے اقدامات کی ہے جو دوسروں کے دل میں گھر بنا سکتی ہے اور اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھ سکتی ہے مرتضی سولنگی کے سامنے آزادی صحافت اور پروپیگنڈے میں واضح فرق ہے ۔اس بات سے کم لوگ ہی واقف ہونگے کہ مرتضی سولنگی اپنی سوچ اور پیشے میں ایمانداری کی وجہ سے کئی مرتبہ بے روزگار بھی ہوئے اور میڈیا ہاﺅسز میں انکے دروزاے بند کئے گئے ، اہم ملازمتیں کرنے کے باوجود بھی وہ ایک متوسط فیملی سے تعلق رکھتے ہیں وہ دولت کی ہوس سے ہمیشہ دور رہے۔امید اورانکے ماضی سے کامل یقین ہے کہ وزارت اطلاعات وطن عزیز کو درپیش مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریگی۔
مرتضی سولنگی کی تقرری ایک مستحسن اقدام
Aug 24, 2023