پختونخواہ کے علاقے بٹ گرام میں بڑا سانحہ ہونے کو تھا لیکن فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے تین مرحلوں پر مشتمل ایک بظاہر ناقابل یقین، ناممکن آپریشن کر کے ان 8 بچوں کو بچا لیا جو سینکڑوں فٹ کی بلندی پر ایک چیئر لفٹ میں پھنس گئے تھے۔ پہلے دو مرحلے ناکام رہے، تیسرے مرحلے میں کامیابی ہوئی۔ دن بھر جاری رہنے والے اس آپریشن نے پورے ملک کو سانس روک کر ٹی وی سکرین سے چپکے رہنے پر مجبور کر دیا۔ بہت مشکل تقریباً ناممکن مشن کی کامیابی پر سب نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا اور اسے مبارکباد بھی دی، بچ کر آنے والے بچوں نے ”رہائی“ پاتے ہی پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔
لیکن اس سارے عمل کے دوران ایک پٹی پٹائی، گھسی گھسائی ، مری مرائی، ”رلی رلائی“، پارٹی کے سوشل میڈیا نے ایک الگ قسم کا کہرام برپا کئے رکھا۔ دن بھر یہ مہم چلائی جاتی رہی کہ فوج کچھ نہیں کر رہی، یہ صرف ڈرامے کر رہی ہے، کمپنی کی مشہوری کیلئے کھڑاگ رچایا گیا۔ بچوں کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ، یہ مر جائیں گے اور کمپنی کی مشہوری ہو جائے گی۔
رات کو تمام بچے محفوظ حالت میں نکال لئے گئے۔ بے شک سب ”ٹراما“ میں تھے، زمین سے سینکڑوں فٹ بلندی پر ایک تار سے ان کی زندگی چمٹی ہوئی تھی اور یہ تار کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ جونہی آپریشن کامیاب ہوا، پٹی پٹائی مری مرائی پارٹی نے نیا واویلا شروع کیا کہ فوج نے تو کچھ بھی نہیں کیا، سب مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔ یہ مقامی افراد ا یس ایس جی اور ریسکیو کی وردیاں نہ جانے کہاں سے لائے ہوں گے۔ بہرحال، رات کے بعد سے تادمِ ایں تحریر اس ہنگامہ پرور سوشل میڈیا پر سوگوار سی خاموشی ہے۔
___________
مقامی افراد کا ماجرا یہ ہے کہ بہت سے نوجوان ریسکیو سرگرمیوں میں شامل رہے۔ مقامی ریسکیو ادارے اور الخدمت فاﺅنڈیشن کے رضاکار بھی ہمہ وقت مستعد اور تیار رہے۔ اور بھی لوگ تھے لیکن ان سب میں پٹی پٹائی، مری مرائی پارٹی کا کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔ سب کے سب سوشل میڈیا پر حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔
___________
خبریںکُھلیں تو اہل وطن کو پتہ چلا کہ روزانہ یہاں کے ڈیڑھ سو بچے اسی ڈولی پر لٹک کر، موت کی کھائی عبور کرکے سکول جاتے ہیں کہ اس علاقے میں کوئی سڑک ہے نہ کچا راستہ اور مزید معلوم ہوا کہ صرف بٹ گرام ہی نہیں بلکہ اس سارے علاقے میں سڑکوں کا وجود نہیں ہے چنانچہ کہیں رسیوں سے لٹک کر، کہیں رسیوں سے بنے ہوئے پُل عبور کر کے اور کہیں لکڑی کے ٹنے ڈال کر ان پر سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔
___________
خاں صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں ہیں لیکن کلی طور پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ بعض باتیں انہوں نے ایسی کی ہیں کہ ان پر عمل کر کے بھی دکھایا ہے۔
مثلاً ان کے اقوال زریں میں سے ایک یہ بھی تھاکہ ترقی سڑکیں اور پل بنانے سے نہیں ہوتی۔
چنانچہ پختونخواہ میں اپنے نو سالہ اور وفاق میں چار سالہ دور حکومت کے دوران انہوں نے اس قول پر حرف بہ حرف عمل کیا اور کہیں پر بھی کوئی ایک سڑک تو کیا، ”سڑکی“ بھی نہیں بنائی نہ بننے دی۔ یہاں تک کہ پہلے کی بنی ہوئی جو سڑک ٹوٹ گئی، اسے بھی نہیں بنایا، جو پُل گر گیا ، وہ اس نو سال کے دور میں گرا ہی رہا۔ خان صاحب اس اصول کو بہت مانتے تھے کہ گری پڑی چیزوں کو نہیں اٹھانا چاہئے۔
ہاں، ایک چھوٹی سی ”سڑکی“ بنانے کا دعویٰ انہوں نے ضرور کیا ، بنی گالہ جانے والی ایک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی__ لیکن فوراً ہی ”تصحیح“ ریکارڈ رکھنے والوں نے کر دی کہ یہ سڑک نواز شریف نے اپنے دور میں بنوائی تھی۔ خان صاحب کا حصہ اس سڑک میں محض اتنا تھا کہ اس سڑک کی تعمیر کے لیے انہوں نے نواز شریف سے درخواست کی تھی جو انہوں نے فوراً مان لی۔
___________
پختونخواہ میں اس وقت سڑکیں ہیں نہ سکولوں کی تعداد پہلے جتنی رہ گئی ہے۔ جتنے سکول ہیں، وہ ”رہے سہے“کے عنوان کے تحت آتے ہیں۔ اسی طرح سے ہسپتالوں کا حال ہے۔ ہسپتالوں کا خاتمہ کرنے کا مقدس مشن انہوں نے اپنے کزن جہانزیب برکی کے سپرد کیا تھا جو انہوں نے ایمانداری سے کیا۔ آپ نے شاید بھارت کی وہ فلم دیکھی ہو جس میں انڈر ورلڈ کا ایک ڈان یہ مکالمہ بولتا ہے کہ ہمارا دھندا بے ایمانی کا ہے لیکن کرنا ایمانداری سے پڑتا ہے۔
اس دوران پختونخواہ نے جتنے قرضے لئے، وہ باقی تین صوبوں کے اسی مدّت کے دوران لے گئے مجموعی قرضوں سے بھی کئی گنا زیادہ تھے۔ اتنی بڑی رقم کہاں گئی؟
خیر، کچھ نہ کچھ ترقیاتی کام تو ضرور ہوئے۔ جن کی وڈیوز بھی جاری کی گئیں۔ مثلاً ایک ایم پی اے صاحب نے کسی جگہ مین ہول کا نیا ڈھکن لگایا، اس موقع پر شاندار تقریب ہوئی۔ ایک وفاقی وزیر کی وڈیو بھی ہم نے دیکھی جو ایک ”نلکے کا افتتاح کر رہے تھے۔ اس موقع پر اردگرد کی گلیاں اور بازار شاندار اور رنگا رنگ بینروں سے سجا دئیے گئے تھے، میلے کا یہ سماں تھا۔ یہ وفاقی وزیر حال ہی میں گرفتار ہوئے، اگلے دن رہا ہو گئے لیکن سائفر کیس میں ان کا نام بھی آ رہا ہے۔
یہی نہیں، ایک ایم پی اے صاحب غباروں میں ہوا بھرنے کی ٹینکی یا سلنڈر کا افتتاح اس پر ہاتھ پھیر کر کرتے ہوئے پائے گئے۔ اس موقع پر لوگوں نے تبدیلی آ گئی ہے کے پرجوش نعرے لگائے۔ اسی طرح کے متعدد اور ترقیاتی کاموں کا سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
___________
صدر عارف علوی نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو واپس بھیج کر جس خاتون افسر محترمہ حمیرہ صاحبہ کو ان کی جگہ تعینات کرنے کا حکم دیا تھا، انہوں نے صدر صاحب کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ صدر صاحب نے بھی عجیب ماجرا کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں بل دس دن بعد قانون بن جائیں گے، انہیں روکے رکھا۔ بظاہر وہ دستخط کرنے سے ڈرتے تھے اور دستخط نہ کرنے سے بھی ڈرتے تھے، اسی ڈر میں مارے گئے۔ بل قانون بن گئے تو پہلے معاملہ ملٹری سیکرٹری پر ڈالنے کا ارادہ کیا، پھر یاد آیا کہ یہ کام تو ان کے قائد پہلے ہی کر چکے ہیں، چنانچہ ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری پر ڈال دی اور ٹویٹ کھڑکا دیا۔ پھر فوراً ہی پرسنل سیکرٹری کو بلایا کہ میں نے غلط کیا لیکن مجبوری تھی۔ اب تم چپ رہنا، ہم پھر حکومت میں آ کر ازالہ کر دیں گے لیکن پرسنل سیکرٹری چپ نہ رہے، حقیقت پر سے پردہ اٹھا دیا ۔
صدر صاحب اب برے نہیں، بہت برے پھنسے۔ کاش ”مائنڈ اپلائی“ کر لیا ہوتا۔