جان بچانے پر سیاست، قوم کے لیے لمحہ فکریہ!!!!

بٹ گرام میں چیئرلفٹ میں پھنسے آٹھ افراد عرفان، نیاز محمد، رضوان، گلفراز، شیر نواز، ابرار، عطا اللہ اور اسامہ کو بحفاظت ریسکیو کیا گیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ سارا دن دل تیز تیز دھڑکتا رہا اور نظریں ٹیلیویژن سکرین یا پھر مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات پر ہی رہیں۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ کسی بھی قسم کے نقصان کے بغیر ریسکیو آپریشن مکمل ہوا اور لفٹ میں پھنسے تمام افراد بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ آج خوشیاں ہیں خدانخواستہ مشکل اور تکلیف دہ صورتحال بھی ہو سکتی تھی لیکن سب نے مل کر لفٹ میں پھنسے افراد کو نکالا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ کام کس نے کیا، کون سب سے آگے تھا اور کون سب سے پیچھے، کون ہدایات دیتا رہا، کون عملی طور پر مصروف رہا کون سامان پہنچاتا رہا کون انتظامات دیکھتا رہا یہ سب چیزیں اس وقت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں جب آپ آٹھ انسانوں کی زندگی بچانے کے بعد گھر واپس جاتے ہیں۔ یہ کریڈٹ سب کا ہے جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سارا دن پاکستانی اس ریسکیو آپریشن کو بھی اپنی اپنی سیاسی نظر سے دیکھتے رہے۔ ہم کس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے، کیا یہ کافی نہیں کہ آٹھ انسانوں کو بچا لیا گیا۔ کیوں ہم ہر کام میں سیاست کرتے ہیں کیوں ہر کام کو سیاست زدہ کرتے ہیں کیوں ہر معاملے میں نفرت اور جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ یہ تمام کام کر کے ہم کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے ملک کا ہی نقصان کرتے ہیں ۔ دنیا ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم جھوٹی پوسٹس اور ایڈٹ ہوئی فوٹوز دکھانے سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ دشمن کامیاب ہے اس نے ہمیں ٹھیک کام پر لگایا ہے۔ ہم سارا دن موبائل پر ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے میں الجھتے رہتے ہیں یوں ناصرف اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کر رہے ہیں بلکہ دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔بہرحال ان تمام بہکے ہوئے افراد اور اس گروہ کو جو ان معصوموں کی سادگی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے اسے خبر ہو کہ ایسے کام نہیں چلے گا۔ جھوٹ بے نقاب ہو گا سچ قوم کے سامنے آئے گا ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے یقینا منطقی انجام تک پہنچیں گے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت نے ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں وہ زہر گھولا ہے کہ آج ہر دوسرا شخص اپنے آپ سے متنفر اور بدظن ہے۔ سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں حتی کہ مشکل میں پھنسے پاکستانیوں کی جان کو خطرات لاحق ہیں ان کی مدد کرنے والوں کو بھی سیاسی رنگ دے دیا ہے۔ 
 600 فٹ بلندی پر چیئرلفٹ میں پھنسے افراد کو بچانا مخصوص سیاسی سوچ رکھنے والوں کے نزدیک بے معنی ہے۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جی او سی ایس ایس جی نے ریسکیو آپریشن کی قیادت کی، آرمی چیف کی ہدایت پر آرمی ایوی ایشن، ایس ایس جی ٹیموں نے ریسکیو آپریشن کا تیزی سے آغاز کیا، پاک فوج کی سپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم اور پی اے ایف کا ہیلی کاپٹر بھی آپریشن کا حصہ بنا، سلنگ ٹیم کو آرمی ایوی ایشن نے مکمل تکنیکی مدد فراہم کی۔ آپریشن میں پاک فوج، پاک فضائیہ کے پائلٹس نے بے مثال مہارت اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ریسکیو آپریشن کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مقامی کیبل ایکسپرٹ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں، آپریشن میں سول انتظامیہ اور مقامی افراد نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، یہ ایک انتہائی مشکل اور کٹھن آپریشن تھا۔ پاک فوج اور پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز نے بروقت جائے وقوعہ پر پہنچ کر امدادی آپریشن کا آغاز کیا، ریسکیو آپریشن میں شامل تمام ٹیموں نے اس منفرد آپریشن کو سرانجام دیکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، افواج پاکستان نے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں عوام کی آواز پر لبیک کہا ہے، افواج پاکستان مشکل کی ہر گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہیں اور رہیں گی۔
آئی ایس پی آر نے آپریشن کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے اس عمل کا حصہ بننے والوں کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ اگر مقامی لوگوں نے آپریشن میں حصہ لیا ہے تو یہ منفی مہم چلانے والے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ تقسیم ہیں۔ یہ ملک سب کا ہے ۔ اس ملک کی حفاظت بھی سب کی ذمہ داری ہے ، اس ملک کے دشمنوں کا مقابلہ بھی ہم سب نے مل کر ہی کرنا ہے۔ نجانے یہ بھٹکے ہوئے لوگ کس سوچ کے تحت جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں منفی، جھوٹی اور بے بنیاد مہم کسی بھی طرح آگ لگانے سے کم نہیں ہے۔ یہ جانے انجانے میں اپنے ہی ملک کو آگ لگا رہے ہیں۔ معصوم لوگ سازشی عناصر کا ایندھن بن رہے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا ہے۔ جو آگ یہ لگا رہے ہیں سب اس آگ میں جلیں گے۔ ملک میں بدامنی ہو گی تو سب کا نقصان ہو گا۔ بہرحال ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اور جن لوگوں نے ذہنوں کو آلودہ کیا ہے ان کا کڑا احتساب بھی ضروری ہے۔ ملک سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں ہے اگر کوئی ملک کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے برطانوی وکیل راشد یعقوب کو اپنا کیس عالمی اداروں میں اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بھی ایک بڑی پیشرفت ہے۔ یعنی عمران خان اپنے ملک کے نظام انصاف پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ اپنے ملک کے قوانین پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ کل تک وہ ان عدالتوں کی تعریف کیا کرتے تھے۔ یہ وہی عدالتیں اور قوانین ہیں جن کے تحت ملک کے دیگر سیاست دانوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ اب کیوں پی ٹی آئی کے سربراہ کو عالمی اداروں میں جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ یعنی وہ بیرونی امداد کے منتظر ہیں۔ یعنی عالمی ادارے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں اور عمران خان کی رہائی کا بندوبست کرنے کے بعد انہیں وزارت عظمی کے منصب پر بٹھائیں۔ نجانے ملک کو معاشی طور پر نہایت کمزور کرنے اور بدامنی پھیلانے کے بعد عمران خان اب کیا چاہتے ہیں۔ انہیں مختلف مقدمات میں مختلف وقتوں میں اچھی خاصی سہولت ملی ہے لیکن اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں۔ اب وہ عالمی اداروں سے رجوع کے سفر پر ہیں دیکھیں کیا کرتے ہیں۔ اگر یہی کام کوئی اور کرتا تو یقینا پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ مخالفت کوئی نہ کرتا۔
آخر میں محشر آفریدی کا کلام
انا کا بوجھ کبھی جسم سے اتار کے دیکھ
مجھے زباں سے نہیں، روح سے پکار کے دیکھ
میری زمین پہ چل تیز تیز قدموں سے
پھر اس کے بعد تو جلوے مرے غبار کے دیکھ
یہ اشک دل پہ گریں تو بہت چمکتے ہیں
کبھی یہ آئینہ تیزاب سے نکھار کے دیکھ
نہ پوچھ مجھ سے ترے قرب کا نشہ کیا ہے
ت±و اپنی آنکھ میں ڈورے مرے خمار کے دیکھ
ذرا تجھے بھی تو احساسِ ہجر ہو جاناں
بس ایک رات میرے حال میں گزار کے دیکھ
ابھی تو صرف کمالِ غرور دیکھا ہے
تجھے قسم ہے تماشے بھی انکسار کے دیکھ

ای پیپر دی نیشن