ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ سات مردوں اور ایک عورت کو مبینہ طور پر ایسے دو لوگوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزا ئی گئی ہے، جنہیں اس سے قبل گزشتہ سال اس ملک گیر احتجاج کے دوران ایک نیم فوجی رضا کار کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔ یہ احتجاج پولیس کی حراست میں مہسا امینی نامی ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔آٹھ افراد کو یہ سزا امینی کی ہلاکت کی 16 ستمبر کو پہلی برسی سے چند ہفتے قبل ایک ایسے موقع پر سنائی گئی ہے جب کہ حکام مستقبل کی کسی ممکنہ ہنگامہ آرائی کو روکنے کی غرض سے سرگرم کارکنوں اور دوسرے لوگوں کو پکڑ رہے ہیں۔ایرانی عدلیہ کی نیوز ایجنسی میزان نے ان سزاؤں کی پہلی بار سرکاری طور پر تصدیق کی ہے جو بظاہر کاراج نامی شہر میں ایک انقلابی عدالت نے سنائی تھیں، جہاں نومبر میں ایک نیم فوجی رضاکار کو قتل کیا گیا تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی عدالت عالیہ یا سپریم کورٹ نے، سزا پانے والوں کے وکلاء کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سزاؤں کو بحال رکھا ہے۔میزان نے بتایا ہے کہ مدعا علیہان کو جنگ کرنے اور فساد فی الارض کا مرتکب پایا گیا۔ یہ اصطلاح اکثر ایرانی حکومت کو کمزور کرنے کوششوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ایران کی انقلابی عدالت بند دروازوں کے پیچھے مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ اور اس پر عرصہ دراز سے سرگرم کارکنوں اور دوسری اقوام کی جانب سے اپوزیشن کے لوگوں اور مغربی ملکوں سے تعلقات رکھنے والے لوگوں کو سخت سزائیں دینے کے لیے نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔یہ عدالتیں مقدموں میں ماخوذ لوگوں کو نہ تو اپنی مرضی کے وکیل کی اجازت دیتی ہیں نہ اپنے خلاف ثبوت اور شواہد دیکھنے دیتی ہیں۔مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں ہونے والے مظاہروں میں پانچ سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور اس سلسلے میں ہونے والی پکڑ دھکڑ میں دو ہزار دو سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔یہ مظاہرے 1979 میں اسلامی انقلاب کے نتیجے میں ایران میں قائم ہونے والی مذہبی حکومت کے لیے بڑے چیلنجوں میں سے ایک تھے۔ہفتوں میں حکام نے نیو یارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس کے بیان کے مطابق مظاہروں کو دوبارہ ہونے سے روکنے کی کوشش میں کم از کم 22 سرگرم کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔