کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے اس شعر کے خالق کُہنہ مشق شاعر، صحافی، ارتضیٰ نشاط منگل کی شب رحلت فرماگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر85 سال تھی۔تفصیلات کے مطابق ریت کی رسی، تکذبان، کہرام اور واقعی جیسے شعری مجموعوں کے خالق ارتضیٰ نشاط کا تعلق اُتر پردیش کے مردم خیز شہر بدایوں سے تھا۔ اُن کے والد شاہد بدایونی ممتاز شعراء میں شمار کئے جاتے تھے۔ارتضیٰ نشاط کو تخلیق شعر کا فن وراثت میں ملا۔ ابتداء میں بی ای ایس ٹی میں ملازمت کی مگر اُن جیسے شاعر نے جزوقتی شاعر بننا پسند نہیں کیا چنانچہ ملازمت سے سبکدوشی اختیار کرلی اور شعر و ادب کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنالیا۔بعد ازاں روزنامہ انقلاب سے وابستہ ہوئے۔ یہ وقت وہ تھا جب انقلاب کی ادارت ظ انصاری صاحب کے ذمہ تھی۔ اُن کی جوہر شناس نظروں نے ارتضیٰ نشاط کی صلاحیتوں کو آنک لیا تھا لہٰذا انقلاب کے ادارتی عملے میں شمولیت کی خود دعوت دی۔ اس طرح وہ اِس اخبار سے کم و بیش بیس برس وابستہ رہے۔ اُنہوں نے ظ صاحب ہی کے اصرار پر انقلاب کیلئے روزانہ ایک ہزل لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پھر روزانہ قطعہ اُن کی پہچان بن گیا۔ انقلاب کے جتنے قاری اُنہیں الف نون کے نام سے جانتے تھے، اُس سے کہیں زیادہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ یہ الف نون ہے کون؟ارتضیٰ نشاط نے شعر گوئی کا سلسلہ تب شروع کیا جب ترقی پسندی کا سورج نصف النہار پر تھا مگر وہ کسی اور جہان کی سیر کرنا چاہتے تھے۔ روایت سے خوب خوب استفادہ کیا، جدیدیت کی راہ اپنائی اور اپنی غیر معمولی شعری صلاحیت سے بہتوں کو متاثر کیا۔ ارتضیٰ نشاط کو الوداع کہنے کیلئے ممبئی، ممبرا، نوی ممبئی ، بھیونڈی اور کئی دیگر علاقوں کے ادباء، شعراء، اُن کے متعلقین اور مداح بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے۔ ایم ایم ویلی قبرستان ،کوسہ میں اُنہیں سپرد خاک کیا گیا۔ پسماندگان میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اُن کے کئی اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں ہر اک دور ہر اک عہد میں زندہ ہوں نشاطؔ سب سمجھتے ہیں مجھے اپنے زمان والا ... دیئے کی لَو میں تمہی نے گِرہ لگائی نشاطؔ کہ شعر شعر میں باندھے ہیں بات بات کے رنگ .... محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں صدف سے ابر گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے۔۔۔۔ فسادی شرپسندوں میں کتابیں بانٹ دی جائیں کہ ملبے سے کسی بچے کا اک بستہ نکلتا ہے ... جیسے ہر شخص کوئی جرم کئے بیٹھا ہو گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے .. سہولت سے مہمان کھیلیں شکار درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں ... سورۂ والعصر ہے قرآن میں مجھ سے زیادہ کون ہے نقصان میں .... اوران کے یہ دو شعر تو عالمی سطح پر گونج رہے ہیں کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے۔۔۔شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے۔