جگر سکڑنے کی صورت میں نیند کی دوائی اور کھانسی کے شربت سے اجتناب برتیں

میگزین رپورٹ
 کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی و میو ہسپتال کے پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر اسرار الحق طور نے کہا کہ حاملہ خواتین میں ہیپاٹائٹس بی کا ٹیسٹ مثبت ہو تو زچگی کے وقت یہ مرض بچوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے لہذا انہیں ویکسی نیشن میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے تاکہ زچہ و بچہ محفوظ رہیں۔میڈیکل سٹوڈنٹس کو لیکچر دیتے ہوئے ڈاکٹر اسرار الحق طور نے انکشاف کیا کہ انجیکشن کی بجائے ہیپاٹائٹس سی کا علاج ادویات سے زیادہ کامیاب ہے اور مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے شہریوں سے درخواست کی کہ وہ جگر سکڑنے کی صورت میں نیند کی دوائی اور کھانسی کے شربت سے اجتناب برتیں وگرنہ بڑے نقصان میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس اے کی علامات میں بھوک کم لگنا چڑ چڑاپن، تھکاوٹ،آنکھوں و جسم کی رنگت پیلی اور بے چینی ہونا شامل ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے جس کے بارے میں لوگوں کی لاپرواہی،عدم معلومات اور پرہیز علاج سے بہتر ہے کے اصول کو نہ اپنانے کی وجہ سے صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے لگی ہے جبکہ کالے یرقان کی وجہ سے شرح اموات میں تیزی سے اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ عام طور پر لوگ شعور و آگاہی نہ ہونے کی بناء پر اپنا بلڈ ٹیسٹ نہیں کرواتے اور ہیپاٹائٹس کے مرض کو ایک سٹگما (Stigma) سمجھتے ہوئے اپنے مرض کو پوشیدہ رکھتے ہیں جو آہستہ آہستہ مہلک صورتحال اختیار کرلیتی ہے اور جب مریض کوہسپتال لایا جاتا ہے تو ڈاکٹروں کے لئے اکثر اوقات اْن کا علاج مشکل بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے اور وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہیپاٹائٹس کے مریض کی بر وقت تشخیص اور علاج کو ممکن بنایا جائے۔
ڈاکٹراسرار الحق طورکا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس کی روک تھام کے لئے کنٹرول سے وابستہ ڈاکٹرز اور فیلڈ سٹاف کو یہ ذمہ داری لینی چاہیے کہ وہ معاشرے میں موجود مریض تلاش کریں جس کے لئے عوام کو خون کا ٹیسٹ کروانے کی ترغیب دینا اور انہیں قائل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ رضا کارانہ طور پر ہیپاٹائٹس سی کا ٹیسٹ کروائیں۔انہوں نے بتایا کہ اگر خدانخواستہ ٹیسٹ مثبت آئے تو بیماری کی بر وقت ابتداء  سے ہی علاج شروع کیا جا نا چاہیے تاکہ مرض کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ڈاکٹر اسرار الحق طور نے کہا کہ ہیپاٹائٹس قابل علاج مرض ہے،مناسب احتیاط و علاج سے مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتا ہے تاہم اس بیماری کے لگنے کی وجوہات کا سد باب کرنا بھی ضروری ہے جس کے لئے ڈسپوزل سرنج کا دوبارہ استعمال قطعی طور پر ترک اور مریض کو ہمیشہ سکریننگ شدہ خون لگایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن،دانتوں کے علاج اور حجاموں کے اوزار باقاعدہ طور پر انفیکشن سے پاک ہونا ضرور ی ہیں کیونکہ مذکورہ اشیاء کے استعمال سے یہ بیماری دن بدن بڑھ رہی ہے اور غیر مستند عطائیوں،نیم حکیموں کے علاج سے بیماری کی وجہ سے کیس مزید بگڑ جاتا ہے جو مریض کیلئے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے لہذا حکومتی سطح پر اقدامات کے ساتھ ساتھ صحت کی شعبہ میں کام کرنے والی غیر سرکاری سماجی تنظیموں اور رضا کاروں کو بھی اس جہاد میں حصہ لینا ہوگا۔ڈاکٹراسرار الحق طور نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کریں، پانی ہمیشہ ابال کر استعمال میں لائیں،گلی سڑی سبزیوں اور پھلوں سے اجتناب برتیں تاکہ اس مرض پر قابو پایا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن