بچپن کی یادوں کا آغاز لْنگی سے ہوتا ہے۔ لْنگی یا دھوتی بچے بڑے سب پہنتے بلکہ باندھتے تھے اوپر قمیض پہنی جاتی۔ یہ دیہات کا عمومی کلچر تھا۔ میرے گاؤں میں بجلی لڑکپن کی عمر گزرنے کے بعد آئی۔سکول یونیفارم تو ہوا کرتی تھی ، ملیشیا کی۔ مگر ہم بچے زیادہ تر دھوتی باندھ کر جایا کرتے تھے۔ استاد بھی شلوار پاجامہ تب پہنتے جب معائنہ کے لیے افسران نے آنا ہوتا۔ جوتے سکول جاتے ہوئے کبھی ہوتے کبھی ننگے پاؤں۔ ہمارے سکول میں ایک ہی ٹیچر ہوا کرتے تھے۔زیادہ تر ہماری استادوں سے شکایت ٹوبا لینے کی ہوتی۔ سیاہی کی دوات اور سر کنڈے کانے کی قلم ہوا کرتی تھی۔ لکڑی کی تختی سکول جانے کے پہلے روزساتھ ہوتی۔ لوہے کی سلیٹ دوسری جماعت سے شروع ہوتی، کپڑے کا بستہ ہوا کرتا۔ تختی بھی سکول کے سامنے نہری پانی کی نالی میں دھوئی جاتی۔ اگر کسی کی دوات میں قلم لگا تو شکایت بن گئی۔ ماسٹر جی اس نے ٹوبا لے لیا۔ ماسٹر صاحب دبکا مار دیتے۔ یہ شکایت کچی پکی اور دوسری جماعت تک ہوتی۔ پھٹّی سلیٹ قلم دوات پانچویں یعنی پرائمری تک ہی چلتی۔
ہمارا سکول پنڈ سے تھوڑے سے فاصلے پر قبرستان کے کونے پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز میں اسی قبرستان سے گزر رہا تھا کہ مجھے سامنے براؤن رنگ کا سانپ بائیں سے دائیں گزرتا دکھائی دیا۔ وہ میرے بالکل سامنے تھا اور میں اس کے اوپر سے بڑی بے نیازی سے بلا خوف و خطر گزر گیا۔ اتنا شعور تھا کہ سانپ کاٹ لے تو کٹنے والا مر بھی جاتا ہے۔مگر مجھے اس کے اوپر سے گزرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ سن رکھا تھا ، قبرستان میں بابا ہدایت شاہ کا مزار ہے اور سانپ ان کی برکت سے اندھا ہو جاتا ہے۔ بچپن میں یہ پختہ اعتقاد تھا،اب...؟
کچھ عرصہ کے لیے سکول میں دو ٹیچر بھی تعینات ہوئے۔ ان میں ایک ماسٹر دین محمد تھے۔ بچوں کی اپنے ہاتھ سے ناک صاف کرنے کو بالکل بھی معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ بڑے بچے قمیض کے دامن کو ٹشو اور تولیہ کے طور پر استعمال کرتے۔ہمارے مستقل ٹیچر کا نام یٰسین شاہ تھا۔ ہم انہیں شاہ جی کہا کرتے۔ انہوں نے بھینسیں رکھی ہوئی تھیں۔ ان کے چارے اور صفائی کا کام بھی ہمارے ذمہ ہوتا۔ چوتھی پانچویں کے بچے یہ کام کیا کرتے۔جب کبھی کوئی افسر معائنہ کے لیے سکول آتا تو شاہ جی کے حکم پر بچے گھروں سے جا کر گلاس گلاس دودھ لے کر آتے۔دوپہر کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی ریسٹ ہوتی جسے تفریح کہا جاتا۔ اس وقفے میں گھر آ کر لنچ کر لیا کرتے۔ گاؤں میں لنچ میں کیا ہوتا۔چوپڑی روٹی ، لسی، چٹنی، اچار یا کوئی سالن ہوتا۔ یہ سب ایک ساتھ نہیں بلکہ ان میں سے روٹی کے ساتھ کوئی ایک لوازم۔ناشتے میں روٹی یا مکھن والا پراٹھا ہوتا۔ چائے کبھی نہیں ہوتی تھی۔ مہمان آتے تو ان کے لیے چائے بنتی وہ بھی گڑ یا شکر کی۔ انڈے کھانے کو ضرور مل جاتے کیونکہ مرغیاں گھر کی ہوتی تھیں۔ گوشت عید پر یا کسی سپیشل مہمان کی آمد پر پکتا تھا۔
بجلی اور ٹوائلٹ کا نہ ہونا اب زندگی میں کیسا لگتا ہے؟
بچپن میں سردیوں میں لباس لنگی اور قمیص ہوتا، گرمیوں میں صرف لنگی رہ جاتی، زیادہ سردی ہونے پر دو قمیضیں، شدیدسردی میں تیسری قمیض کی ضرورت محسوس ہوتی مگر تیسری قمیض ہوتی ہی نہیں تھی۔ مجھے وہ کتا اور اسکی ’’چانگریں‘‘ نہیں بھولتیں جس نے ایک بار مجھے سکول سے واپسی پر کاٹنے کی کوشش کی۔ اسکے دانت پاجامے میں پھنس کر رہ گئے۔ ٹانگ محفوظ رہی۔
میرے روئیں روئیں سے انتقام کی صدا آرہی تھی۔میں گھر گیا، بستہ رکھا،ایک روٹی اْٹھائی،کتے کو تلاش کیااور ٹکڑا ڈالتے ڈالتے اسے گھر تک لے آیا۔غیر محسوس طریقے سے اسکی دْم پر مٹی کے تیل کا دیا انڈیلا اور موقع پا کر تیلی لگا دی۔ شعلہ بار دْم کو لہراتا اور چلاتا ہواکتا یہ جا وہ جا،یہ کتا غیرت مند نکلا دوبارہ گاؤں میں نظر نہیں آیا۔ میں چوتھی میں تھا جب میرے ساتھ یہ واقعہ اور کتے کے ساتھ سانحہ پیش آیا۔چھٹی کلاس میں قصبے کے سکول میں داخلہ لیا۔ایک دن ساتھ والے گاؤں سے سکول جانے کے لیے گزر رہا تھا کہ لنڈورے کتے پر نظر پڑی۔ میں نے سائیکل آہستہ کر لی جو پہلے بھی ہوا میں نہیں اڑ رہی تھی۔ کتے نے بھی میری طرف دیکھ لیا۔ شاید پہچان بھی لیا۔ اس نے گھوں گھوں کی آواز نکالی۔ بھونکا نہیں اور دائیں مْڑ گیا۔ میں تھوڑا آگے گیا اور کچھ سوچ کر واپس آ گیا۔ اس دوران وہ بھی اسی جگہ آ کر بیٹھ چکا تھا۔ مجھے دیکھا تو اٹھ گیا۔ میں نے سائیکل کے ہینڈل سے بندھی پوٹلی کھولی۔ اس سے روٹی نکالی اور جہاں کتا بیٹھا تھا وہیں رکھ دی جو وہاں سے اٹھ کر ایک بارپھر دوسری طرف جا رہا تھا۔ اگلے روز بھی وہ وہیں بیٹھا تھا۔ آج مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کر ضرور بیٹھ گیا تھا مگر کہیں گیا نہیں۔ اس کے لیے میں گھرسے ایک روٹی لے گیا تھا۔ یوں کبھی کبھی اس کے لیے روٹی لے جاتا۔ ایک روز واپسی پر جب میں اس کے قریب سے گزرا تو اس نے سائیکل کے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا۔ میں نے سپیڈ کم کر دی۔ وہ گھر تک سائیکل کے ساتھ چلا آیا۔ میں گھر کے اندر چلا گیا مگر وہ دروازہ پر باہر ہی رک گیا۔ وہ عموماً دروازے پر بیٹھا رہتا۔گھر کے اندر بھی کبھی چلا آتا۔دوسرے کتوں کے ساتھ بھی کبھی کبھی پھرتا تھا۔چھٹی کے روز میرے ساتھ ہی کھیتوں میں چلا جاتا۔ یہ پالتو نہیں آوارہ کتا تھا مگر اس کی عادتیں پالتوؤں جیسی ہو گئی تھیں۔اسے پلا کہہ کر پکارتا تھا۔اس کی لنڈوری دم کی وجہ سے اس کی خاص شناخت بھی بن گئی تھی۔میں ایک روز کھیتوں کے درمیان بنّے سے گزر رہا تھا۔ پلا پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ اچانک وہ تیزی سے بھاگتا ہوا میرے آگے آیا۔ اس نے تیزی سے اپنا منہ بنّے پر مارا۔اگلے لمحے اس کے دانتوں میں تین چار فٹ کا سانپ دبا ہوا تھا۔ اسے اس نے درمیان سے دبوچ کر پٹخا تھا۔ معاً سانپ نے اسے گردن کے قریب سے ڈس لیا۔ سانپ کے دو حصے ہونے میں کسر نہیں رہ گئی تھی مگر زہریلے سانپ کے کاٹنے کے بعد پلا تڑپ بھی نہ سکا۔اسے اس کی مہلت ہی نہ ملی۔