عزت مآب جناب آرمی چیف صاحب پہلے تو آپ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے ادارے میں خود احتسابی کا عمل شروع کیا۔ چند گزارشات جناب کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ بلاشبہ یہ زندگی فانی اور عارضی ہے، آزمائش کی جگہ ہے۔ خاتم النبیّن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اسلاف کی طرح ہم سب نے بھی باری باری ’’کل من علیہا فان‘‘ کے مصداق اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ بحیثیت مسلمان روزِ آخرت اور جزا و سزا پر ہمارا مکمل ایمان ہے۔ بلاشبہ قاء اعظم کی راہنمائی میں عام عوام نے لاکھوں جانوں کی شہادت کے بعد یہ وطن حاصل کیا تاکہ آزادانہ طور پر وہ اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں، جہاں پراقلیتیں بھی آزاد ہوں۔ جناب 77سال گزر چکے ہیںنہ تو یہاں مسلمانوں کو اُن کے آئینی حقوق مِل سکے ہیں اور نہ ہی اقلیتیں یہاںمحفوظ ہیں۔ عوام جنہوں نے یہ ملک اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ وطن حاصل کیا تھا آج اُن کا کوئی ایک بھی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ صرف گیس اور بجلی کے بل ادا کرنے کے لئے بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ نام نہاد’’جمہوریت‘‘ کے نام پر سیاست دانوں نے ملک میں لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عوام کو جمہوریت یا آمریت سے کوئی غرض نہیں۔ عوام کو تو اپنے مسائل کا حل چاہیے۔ جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام پر اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔ جمہوری نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ جناب یہاں تو 77سالوں سے چند خاندان اس ملک کے عوام کو ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر نوچ رہے ہیں۔ نہ وہ کسی آئین کو مانتے ہیں نہ ہی وہ کسی کوجوابدہ ہیں۔ چند ماہ قبل سندھ میں ’’سیاسی‘‘ حضرات کے گھروں سے ڈالرز اور سونا برآمد ہوا۔ ان سب کی جائیدادیں اور محلات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ پارلیمنٹ اور آئین مقدس ہیں مگرپارلیمنٹ میں موجود صاحبان کا کردار بھی بے داغ ہونا ضروری ہے۔ آج کل تو فارم 45اور 47کی نئی اصطلاحیں سننے کو مِلتی ہیں۔ جناب چائنہ ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا، آج اُس کی ترقی پوری دنیا پرعیاں ہے اورہم 77سال بعد بھی آئی ایم ایف سمیت پوری دنیا کے مقروض ہیں۔ 77سال میں عوام کو مایوسی، بدحالی اور بے چینی کے سِوا کچھ بھی نہیں مِلا۔ عوام کے مقابلے میں حکمران طبقہ اوراشرافیہ اربوں، کھربوں پتی ہیں۔ مفاداتی حکمران ٹولہ قانون سازی بھی اپنے مفاد کے لیے کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ ایک حکم صادر کرتی ہے، بجائے اس پر عمل کرنے کے یہ نیا قانون ’’وضع‘‘ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ 77سال بعد بھی عوام بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں اور حکمران طبقے نے 50کروڑ تک کرپشن معاف کا قانون بنایا ہوا ہے۔ جھوٹے وعدوں اور دلاسوں سے عوام کی توہین کی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل الیکشن سے قبل کوئی 300یونٹ فری دینے کے وعدے کر رہا تھا، کوئی عوام کا دل جھوٹی تسلیوں سے بہلا رہا تھا۔ احتساب نام کی یہاں کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ جناب جہاں احتساب نہ ہو اور صرف لوٹ مار کا بازار گرم ہو وہ قومیں کبھی بھی ترقی نہیں کرتیں۔ جناب میرے والد صاحب سیّد کرامت علی آرمی میں ملازم تھے۔ 1965ء کی جنگ میں حصہ لیا۔ غازی بن کر لوٹے۔ 2000ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ جناب 9مئی کو وطنِ عزیز میں جو کچھ ہوا ناقابل معافی ہے۔ اس میں کون کون ملوث ہیں، غیر جانبدارانہ انکوائری ہو۔ اللہ تعالیٰ خود عادل ہے اور وہ عدل کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔ جو بھی اس شرانگیزی میں ملوث پایا جائے اُسے عبرت ناک سزا دی جائے مگر کسی ایک کے ساتھ بھی ناانصافی نہ ہو۔ یہ جوآج دیگر سیاسی حضرات پاک فوج سے محبت کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ان سب کے ماضی کے بیانات سب پر عیاں ہیں۔ آپ نے اپنے ادارے میں خود احتسابی کا عمل شروع کر کے احسن قدم اُٹھایا ہے۔ جناب آپ دوسروں کو بھی ترغیب دیں تاکہ ہر ایک سیاسی پارٹی اور عدلیہ میں بھی احتساب کا عمل شروع ہو۔ اس ملک کوجس کسی نے بھی کسی بھی طرح لُوٹا ہے اُس کوبلاتفریق کٹہرے میں لایا جائے اوراُس سے لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے۔ جب تک جناب وطن عزیز میں ہرایک کا احتساب نہیں ہوگا یہ ملک اگلے سو سال تک بھی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکے گا۔ یہ ملک عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے، اُن کے جان و مال کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا۔ بخدا 77سال بعد بھی بانیانِ پاکستان کا مقصد ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔ سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی عروج پرہے۔ پاک فوج کوایک منظم ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ اِن نام نہاد سیاست دانوں نے اس ادارے کو بھی متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے کارنامے تو اقتدار میں آنے کے قابل نہیں ہوتے پھر پاک فوج کے منظم ادارے کے کندھوںپر اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ بعد میں انہی کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ بلاشبہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے مگراُس جمہوریت میں سب کو ایک جیسی مراعات حاصل ہوں۔ قانون سب کے لیے یکساں ہو، ایسا نہ ہو کہ حاکم کی اولاد اربوں پتی ہواور عام بچے کوڑھے کے ڈھیر سے اپنا رزق تلاش کریں۔
جناب سے بندہ ناچیزکی گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ موقع عطا کیا ہے کہ اپنے ادارے سمیت دیگر تمام اداروں میں احتساب کا عمل بلاتفریق شروع کرائیں۔ عوام کے حقوق جو اِن حکمرانوں نے غاصبانہ چھین رکھے ہیں انہیں واپس دلائیں۔بخدا آپ کا 24 کروڑ عوام پر یہ احسان عظیم ہوگا۔ پھر یہ ملک ترقی کی راہوں پر چل پڑے گا۔ بانیانِ پاکستان کی روح بھی شاد ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ مخلوقِ خدا خوش ہوگی اور اللہ کریم آپ کو اس کا صِلہ بھی ضرور عطا فرمائے گا۔
’’قافلۂ حجاز میں ایک حسینؑ بھی نہیں‘‘ کے مصداق جناب اِن نام نہاد سیاست دانوں میں کوئی ایک بھی ایسا مسیحا نظر نہیں آتا جوعوام سے سچ بولے، صرف زبانی نہیں عملی طور پر اُن کی دلجوئی کرے، اُن کے مسائل حل کرے۔ خود کو احتساب کے لیے پیش کرے۔ ذاتی مفاد کے لیے یہ سب ایک ہوتے ہیں۔ عوام کے مفاد کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ اس ملک کی ترقی، بقا اور سلامتی کا واحد حل غیرجانبدارانہ اور منصفانہ بلاتفریق احتساب میں مضمر ہے۔ 24کروڑ عوام کو جناب قائد اعظم کے پاکستان کی تلاش ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔