9 مئی کا مقدمہ

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی گرفتاری عسکری تاریخ کا منفرد واقعہ ہے- آئی ایس آئی کا شمار دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے- عسکری امور کے ماہرین کے مطابق جنرل فیض حمید کی گرفتاری ٹھوس تحقیقات اور سنجیدہ غور و خوض کے بعد عمل میں لائی گئی ہوگی- اس بڑی گرفتاری کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں بتایا گیا کہ جنرل فیض کو ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سلسلے میں فوجی حراست میں لیا گیا ہے جس کی انکوائری کی ہدایت سپریم کورٹ نے کی تھی- پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا کہ جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی بعض سرگرمیاں آرمی ایکٹ کے خلاف تھیں- جنرل فیض کی گرفتاری کے اصل مقاصد کیا ہیں ان کے بارے میں مختلف نوعیت کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں- 
عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی دفاع کا فرنٹ لائن ادارہ ہے لہذا لازم ہے کہ اس کی ساکھ اور وقار کا تحفظ کیا جائے - جنرل فیض پر چونکہ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سلسلے میں سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے تھے لہذا ان کی تحقیقات ضروری تھیں - ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں جنرل فیض حمید کا فیلڈ کورٹ مارشل ضروری ہے- 
حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ 9 مئی 2023ء  کے سانحہ سے پہلے جنرل فیض عمران خان کے ساتھ رابطے میں تھے- جنرل فیض کے فون اور تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ریکارڈ کے مطابق ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے مبینہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ 9 مئی کے سلسلے میں جنرل فیض حمید اور عمران خان کا مشترکہ کردار تھا-
 9 مئی 2023ء کے سانحے کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں اور فوجی افسران کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے۔ جو افراد اس سانحہ میں ملوث پائے گئے ان کو سزائیں بھی دی گئیں۔ پاک فوج کے آرمی چیف سید جنرل عاصم منیر نے ان 20 افراد کی سزائیں ختم کر دی تھیں جو دس ماہ زیر حراست رہے تھے- ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد فوج اور سیاست کی اہم شخصیات کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث کیا جا رہا ہے- غیرمعمولی تاخیر کی وجہ سے عوامی سطح پر تحفظات اور خدشات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے-
بعض اینکرز اور صحافی قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ جنرل فیض کو عمران خان کے خلاف سلطانی گواہ بنایا جائے گا - عمران خان نے بھی ایک مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جنرل فیض کو سلطانی گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا جائے گا-  
عمران خان کافی عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ 9 مئی کے سانحہ کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے - پاکستان کی تاریخ میں سلطانی گواہ بنانے کی مثالیں موجود ہیں- ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے ایک مقدمے کے سلسلے میں ایف ایس ایف کے ڈی جی مسعود محمود اور کئی دوسرے افسروں کو سلطانی گواہ بنایا گیا تھا-پاکستان کے سپہ سالار نوجوانوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں- ان کی رائے ہے کہ پاکستان کی آزادی اور قومی سلامتی کے لیے انتہائی لازم ہے کہ پاکستان کے نوجوان اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کے جذبات موجود ہوں-
 افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ عناصر سوشل میڈیا پر پاک فوج اور نوجوانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے مذموم پروپیگنڈا کر رہے ہیں- قومی اتحاد اور یکجہتی کا تقاضا یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف 9 مئی کا مقدمہ اوپن کورٹ میں چلایا جائے تاکہ پاکستان کے عوام شفاف سماعت کو خود دیکھ سکیں- 
جنرل فیض حمید اور عمران خان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے قومی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہیے-اس سلسلے میں اگر انصاف اور شفافیت کے تقاضوں کو پورا نہ کیا گیا تو پاکستان دشمن قوتیں نوجوانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر سکتی ہیں- پاکستان کے سپہ سالار چونکہ پاک فوج کے امیج کے بارے میں بڑے حساس ہیں اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں وہ تمام اقدامات اٹھائیں  گے جو قومی اتحاد اور یکجہتی کے لیے لازم ہیں- مناسب ہوگا کہ 9 مئی کے سانحہ کے لیے اعلیٰ سطحی غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے اور جنرل فیض اور عمران خان دونوں کو اس جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے جس کی سماعت اوپن اور شفاف ہو-

ای پیپر دی نیشن

تفہیم مکالمہ... ڈاکٹر جمیل اختر

jamillahori@gmail.com اساتذہ اور علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا گیا ہے، اور یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ افراد ...